حکومتی آئی پی پیز کیپیسٹی چارجز چھوڑیں تو چین بھی مان جائے گا، حافظ نعیم الرحمان

بدھ 31 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے بجلی کے بلوں کو کم کرنے کا جماعت اسلامی کا مطالبہ قابل عمل ہے۔ اگر حکومت، شریف خاندان اور بڑے صنعت کار اپنے آئی پی پیز کے کیپیسٹی چارجز چھوڑ دیں تو چین بھی اپنے پلانٹس کے حوالے سے رعایت دینے پر مان جائے گا۔

لیاقت باغ راولپنڈی میں جماعت اسلامی کے دھرنے کے دوران وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات نہ مانے تو دھرنا ملک بھر میں وسیع کرنے، تاجروں کی مسلسل ہڑتال کے علاوہ اجتماعی طور پر بلوں کی ادائیگی روکنے جیسے آپشنز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

دھرنے کے مقاصد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عوام کے بجلی کے بل کم ہونے چاہئیں، تنخواہ دار لوگوں پر نیا ٹیکس ختم ہونا چاہیے، کھانے پینے کی اشیا پر ٹیکس ختم کیا جائے اور ایکسپورٹ پر ٹیکس ختم کیا جائے۔

حکومتی عیاشیاں کم کرکے 1500 ارب کی بچت ہوسکتی ہے

اس سوال پر کہ اگر حکومت جماعت اسلامی کے مطالبے منظور کرکے آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانے تو ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ ملک کیسے ڈیفالٹ ہو جائے گا، اپنی مراعات چھوڑ دیں، اچھے خاصے پیسے کور ہو جائیں گے۔

’آپ اپنی بڑی گاڑیاں چھوڑ دیں، طے کرلیں کہ 1300سی سی سے اوپر گاڑی استعمال نہیں ہو گی، فری پیٹرول نہیں ہو گا کسی کو۔ عوام کے ٹیکسوں سے جو عیاشیاں کرتے ہیں اگر یہ ختم ہو جائیں گی تو  چار پانچ سو ارب تو اس سے بچ جائیں گے۔ اگر یہ بڑی گاڑیاں فروخت کر دیں تو ہماری کیلکولیشن کے مطابق ایک ڈیڑھ ہزار ارب آپ کو فوراً دو ماہ میں مل سکتے ہیں۔‘

’کریں آکشن یہ گاڑیاں ۔کیا ضرورت ہے ان کی؟ ہم کیوں پالیں آپ کو بھئی! گاڑی آپ کی بڑی ہو، ایوریج آپ کا زیادہ ہو تو قوم کیوں بھگتے۔‘

آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کیسے ممکن؟

اس سوال پر کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر حکومتی گارنٹیاں موجود ہیں، اب حکومت کیسے انہیں ختم کر سکتی ہے؟ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں معاہدوں پر نظرثانی اور دوبارہ مذاکرات ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ معاہدے کے بعد حالات بگڑ جائیں پھر بھی آپ ایسے ہی لے کر چلتے رہیں۔ خود آئی ایم ایف کے ساتھ بھی دنیا کے کئی ممالک نے معاہدوں پر نظرثانی کی ہے۔

’پاکستان چھوٹا موٹا ملک تو نہیں ہے اس سے بھی بات ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کا رویہ ایسا ہو گا کہ آپ اپنے اخراجات کم کر رہے ہوں گے اور عوام کو ریلیف دیں گے تو وہ آپ کی بات مانیں گے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا تھا کہ غریب سے پیسے لے کر امیروں کو نہ دیں بلکہ امیروں سے غریب کو لے کر دیں۔‘

حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ چین کی کمپنیاں ہیں، وہ ہمارا دوست ہے اس سے بھی بات ہو سکتی ہے مگر آپ عزت اور وقار کے ساتھ مذاکرات کریں۔

’لیکن اس سے پہلے حکومت کے آئی پی پیز تو کیپسیٹی چارجز ختم  کر سکتے ہیں، اس میں کیا مسئلہ ہے۔ اسی طرح حکومت سے متعلقہ لوگ بھی اپنے چارجز چھوڑ سکتے ہیں کہ ٹھیک  ہے،کہ ہم نے ہزاروں ارب کما لیے، اب ہم نہیں لیں گے۔ شریف فیملی تو ایسا کر سکتی ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اس طرح پسندیدہ ترین صنعتکاروں سے بھی کم کروا سکتے ہیں۔‘

’ہم اپنی چیزیں چھوڑیں گے تو پھر چین بھی مانے گا ورنہ کیسے مانے گا۔ یہ سب ہو سکتا ہے۔ یہ غلط بات ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘

حکومت نے مطالبات نہ مانے تو دھرنا وسیع کردیں گے

حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مطالبات قابل عمل ہیں اور لوگوں کی مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ وہ خودکشیوں پر مجبور ہیں، اس لیے مطالبات منوائے بغیر کوئی گنجائش نہیں۔

اگر حکومت نے مطالبات نہ مانے تو دھرنا وسیع کریں گے، اس کو پورے پاکستان میں لے جائیں گے۔ہمارے پاس مسلسل ہڑتال کا آپشن ہے۔ عوام سے رابطہ بڑھ رہا ہے اور بالآخر عوام سے اپیل کریں کہ بل نہ جمع کروائیں۔ بل دے نہیں سکتے۔ اس سے بہتر ہے کہ سب مل کر عمل کریں۔ پورے پاکستان کی بجلی تو نہیں کاٹ سکتے۔

ہم تصادم سے بچنا چاہتے تھے ورنہ ڈی چوک جا سکتے تھے مگر ہم نہیں چاہتے۔

حکومت نے ہمارے مطالبات لیے ہیں۔ ٹیکنیکل کمیٹی بھی بنائی ہے اگر تاخیر کریں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔ ہم لڑنے نہیں آئے مسئلہ حل کرنے آئے ہیں۔ مسئلہ حل کر دیں۔

پی ٹی آئی کی طرف سے پنڈی میں سرکاری دھرنے کا تاثر

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوئی تاثر نہیں ہوتا۔ سیاسی مخالفین میں یہ چھوٹا موٹا چلتا رہتا ہے۔ دیکھیں ن لیگ کا سپورٹر ہو، پی ٹی آئی کے سپورٹرز کا بھی مسئلہ ہے ہم ان کی بھی بات کرتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی میں زیادہ تر دھرنے کی حمایت موجود ہے عمران خان صاحب نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ یہ پاکستانیوں کا دھرنا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ  ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ متبادل قیادت مہیا کرنے کے لیے آپ کی پروفائل بڑھائی جا رہی ہے۔

آپ کو سرکاری سرپرستی مہیا ہے کچھ کہا نہیں جا رہا تو ان کا کہنا تھا کہ جب ہمارا دھرنا شروع ہوا تو اسلام آباد کو بند کر دیا گیا تھا اور کارکنوں کو پکڑا گیا تھا تاہم بعد میں اس لیے چھوڑ دئیے گئے تھے کہ ہم نے تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا۔ ورنہ ہمارے لوگ ڈی چوک تک پہنچ بھی گئے تھے مگر ہم نے خود ہی سوچا کہ یہ راستہ مناسب نہیں ہوگا، اس وقت ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تو پھر ہم نے یہاں پر آنے کو ترجیح دی۔

‘یہ ہماری حکمت ہے کہ پارٹی کو مقبول کرنے کے لیے خراب طریقے استعمال نہیں کر رہے’

اس سوال ہر کہ کیا ان سے ’پنڈی والوں‘ نے بھی رابطہ کرکے کچھ یقین دہانی کروائی، انہوں نے براہ راست جواب دینے کے بجائے کہا کہ پنڈی کے سارے عوام رابطہ کر رہے ہیں روزانہ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ عوام کے علاوہ خواص نے بھی رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کو ہی خواص سمجھتے ہیں۔

مان لیتے ہیں دھرنے میں بوڑھے ہیں، بس مسئلہ حل کریں

ان سے پوچھا گیا کہ ایک تاثر ہے کہ جماعت اسلامی کے دھرنے میں بزرگ افراد زیادہ ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثردرست نہیں۔ یہاں پر دیکھیں کہ جوان بھی ہیں اور بوڑھے بھی ہیں اور ہمارے ہاں بوڑھے بھی جوان ہیں۔ان کو آپ نہیں روک سکتے۔

کل ہماری خواتین آ رہی تھیں اور نوجوان تھیں اور لاہور میں ان کو روکا گیا تو انہوں نے دھرنا دیا تھا۔ ’چلو بوڑھے ہیں مان لیا بوڑھے ہیں مسئلہ حل کر دو‘۔

 جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی اتحاد میں ہمیشہ مثبت کردار نبھایا

عمران خان کی جانب سے جماعت اسلامی کے دھرنے کی حمایت کا خیرمقدم کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بالکل درست بات کی ہے اور خان صاحب کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی کا جو بھی اتحاد پی ٹی آئی سے رہا ہے اس میں جماعت نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ چاہے خیبرپختونخوا حکومت ہو یا پھر فروری الیکشن کے بعد کی صورتحال ہو ہم نے قانونی معاملات میں مکمل حمایت دی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی مخالفت اپنی جگہ ، ایسا نہیں کہ بالکل ہی انہیں چھوڑ دیں گے لیکن ان کی حکومت کا دورانیہ کم تھا اس لیے جتنی تنقید بنتی ہے اتنی کریں گے۔

حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ امیر نہ ہوتے تب بھی جماعت کا دھرنا ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ لمبے دھرنے کے لیے تیار ہیں اور یہاں موجود نوجوان جانے کے موٖڈ میں نہیں۔

سینیٹر مشتاق پر تنقید اور فیک نیوز شیئر کرنے پر پارٹی کی بات چیت؟

اس سوال پر کہ کیا ڈسپلن کے حوالے سے ان کی تنبیہ کا مخاطب سینیٹر مشتاق احمد خان تھے تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عام بات کی تھی کیونکہ یہاں لوگ ڈی چوک، ڈی چوک جانے کے نعرے مارتے ہیں تو میں ان کو کہتا ہوں کہ نظم و ضبط ہماری طاقت ہے، ہماری کلید ہے۔ اگر آپ نظم و ضبط میں رہیں گے تو جماعت کامیاب ہو گی ۔ اس میں یہ پیغام میرے سمیت سب کے لیے ہے۔

جماعت اسلامی متوسط طبقے کے عام لوگوں کو سیاست میں لائی ہے، ان کو مناصب دئیے ہیں اور پارلیمنٹ تک لے کر گئی ہے۔

یہاں پارلیمنٹ میں کسی کو پیسے کی بنیاد پر نہیں بھیجا جاتا۔ پیسے والا جا تو سکتا ہے مگر صرف اس بنیاد پر نہیں جاتا کہ اس کے پاس پیسہ ہے یا الیکٹیبل ہے یا وڈیرہ ہے۔

’ جماعت اسلامی کا اپنا طریق کار ہے، اس کی یاد دہانی کروائی تھی کہ کسی آدمی کو کوئی منصب جماعت کا یا پبلک آفس ملتا ہے تو پھر اس کے بعد اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا لحاظ کرے کیونکہ پارٹی نے ہمارے اوپر وقت اور وسائل کی سرمایہ کاری کی ہے۔

’میں نکالنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنے لوگوں کی تربیت کی جائے اور یہ طریقہ اسلاف کا ہے۔‘

بنوں واقعے کے بعد ایران کے بچے کی  فیک تصویر شیئر کرنے پر سینیٹر مشتاق احمد خان سے بات کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ لوگ غلطیاں کر دیتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومت جب اس طرح کے واقعے پر میڈیا بند کر دے تو لوگوں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، پرانی تصویریں اور ویڈیوز لگا دیتے ہیں۔ مجھ سے بھی ماضی میں غلطی ہوئی تھی، میں نے بھی ڈیلیٹ کر دی تھیں۔

اس پر ہمارے ہاں گفتگو ہوتی ہے کہ غلطی نہیں کرنی چاہیے اور خاص کر حساس معاملات پر بالکل متوجہ رہنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp