الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024ء قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
الیکشن الیکٹ ترمیمی بل زیر غور لانے کی تحریک قومی اسمبلی کے رکن اظہر کیانی نے پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دے دی
اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے قومی اسمبلی میں احتجاج کیا اور کھڑے ہوکر نامنظور، نامنظور کے نعرے لگائے۔
اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا اور نعرے بازی کی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
دریں اثنا، قومی اسمبلی کے رکن صبغت اللہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر ترمیم پیش کی جو کثرت رائے سے مسترد ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں: اسپیکر ایاز صادق سے پی ٹی آئی وفد کی ملاقات، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے لائی گئی ترامیم پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے قانونی طور پر منظور ہوا ہے۔
اس موقع پر رکن قومی اسمبلی صبغت اللہ نے کہا کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل 190 اور 12 کی خلاف ورزی ہے، یہ بل جلدی میں قائمہ کمیٹی سے منظور کیا گیا، ہمارے تحفظات پر غور نہیں کیا گیا۔
انہوں نے تجویز دی کہ ایک منتخب کمیٹی کو بھجوانا چاہیے تاکہ اس بل پر بحث ہوسکے کیونکہ یہ پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے مستقبل کا سوال ہے، یہ بل بدنیتی پر مبنی ہے، یہ بل سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
قانون سازی کرنی ہے تو ملک کے مفاد میں کریں، علی محمد خان
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا کہ کیا پاکستان کی پارلیمان کا یہ کام ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے سیاسی مقاصد کے لیے سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ آج جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں مل رہی ہیں اور اس کے 41 ممبران اسمبلی کو ان کا حق دیا جارہا ہے تو آپ کیسے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قانون سازی کرکے ہمیں ہمارے حق سے محروم کرسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت آصف زرداری نے الیکشن ترمیمی بل 2024 کی منظوری دیدی
انہوں نے کہا الیکشن میں بیلٹ پیپرز پر بلے کا نشان نہیں تھا، میں نے پارلیمنٹری کمیٹی میں الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ کیا یہ بے ایمانی نہیں ہے، بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب کو پارٹی الیکشن کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا گیا تو پی ٹی آئی کے 39 ارکان کو کیسے تسلیم کرلیا۔
پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا کہ حکومت قانون سازی ضرور کرے مگر وہ قانون سازی ملک کے مفاد میں ہونی چاہیے، آپ اللہ کے ناموں کے نیچے کھڑے ہوکر پی ٹی آئی کے ممبران کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے قانون سازی کررہے ہیں، اس کے پیچھے ایک سیاسی جماعت کی فسطائیت ہے۔
قانون سازی آئین کی رو کے عین مطابق ہے، وفاقی وزیر قانون
ارکان اسمبلی صبغت اللہ اور علی محمد خان کے اعتراضات کے جواب میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون سازی کرنا ایوان اور ارکان اسمبلی کا استحقاق ہے۔ انہوں نے کہا، ’اللہ کے ناموں کے نیچے کھڑا ہوکر کہہ رہا ہوں کہ یہ قانون سازی آئین کی رو کے عین مطابق ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ علی محمد خان نے کہا کہ یہ قانون سازی ان کا راستہ روکنے کے لیے ہے اور انہوں نے اللہ کے ناموں کا حوالہ دیا، ان کے 81 لوگوں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف نامہ دیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ سنی اتحاد کونسل سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں کے معاملے میں اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو درخواست گزارہی نہیں تھی، وفاقی وزیراطلاعات
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آپ کے وکیل فیصل صدیقی سے پوچھا کہ آپ یہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کے لیے مانگ رہے ہیں یا سنی اتحاد کونسل کے لیے تو ان کے وکیل نے جواب دیا ’صرف سنی اتحاد کونسل کے لیے‘۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے بھی جب یہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں، آئین کے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 6(3) کے تحت الیکشن میں حصہ نہ لینے والی جماعت کو یہ مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔
انہوں نے کہا کہ حقائق کو درست رکھنا چاہیے، ہم جرم میں ترمیم کرنے نہیں جارہے بلکہ قانون کی وضاحت کررہے ہیں، آئین کے آرٹیکل 51 اور 106، الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 اور الیکشن رولز 217 کے رول 92(6) کی جو منشا ہے وہ ان ترامیم کا حصہ ہے۔
قائمہ کمیٹی نے پہلے سے آئین میں درج شقیں منظور کیں، بلال اظہر کیانی
قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل ستے متعلق اپنی ترامیم پیش کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی نے کہا کہ ان کی اور زیب جعفر کی جانب سے 3 شقیں پیش کی گئیں جنہیں قائمہ کمیٹی نے منظور کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بنیادی طور ہر وہی شقیں ہیں جو آئین میں درج ہیں، پہلی شق میں ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک شخص مقررہ وقت پر ریٹرننگ آفیسر کے سامنے اپنا پارٹی سرٹیفیکیٹ جمع نہیں کراتا تو وہ آزاد رکن تصور ہوگا، یہ تسلیم شدہ بات ہے، ہم نے الیکشن ایکٹ میں اسے واضح ترمیم کے تحت شامل کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق حکم ماورائے آئین، ادارے اس پر عملدرآمد کے پابند نہیں، 2 ججز کا اختلافی نوٹ
بلال اظہر کیانی نے کہا کہ ہماری طرف سے پیش کردہ دوسری ترمیم کے مطابق، اگر کوئی جماعت مقررہ وقت پر مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہیں کراتی تو وہ الیکشن کے بعد مخصوص نشستوں کے کوٹے کی مستحق نہیں ہوسکتی، یہ بھی ایک پریکٹیکل بات ہے جسے سب تسلیم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تیسری شق کے مطابق، اگر کوئی بطور آزاد رکن کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلے تو اس کی شمولیت کو ختم نہیں کیا جاسکتا، یہ تینوں باتیں آئین و قانون میں موجود ہیں اور آئین کے مطابق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا کوئی بھی رکن آج تک یہ ثابت نہیں کرسکا کہ یہ تینوں شقیں کس طرح آئین و قانون سے متصادم ہیں، انہوں نے سیاسی باتیں کیں مگر ٹھوس دلائل نہ دے سکے۔
فارم 47 میں تبدیلی کے بعد اب مخصوص نشستوں کے حصول کی کوشش کی جارہی ہے، بیرسٹر گوہر
چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا ہم اس میں حکومت کے ساتھ رہے، سی پیک ہو یا دوست ممالک کے سربراہان کی پاکستان آمد کے موقع پر حکومت کے ساتھ تھے، لیکن یہاں جس طریقے سے قانون سازی ہورہی ہے، ہم پارلیمان کو سپریم دیکھنا چاہتے ہیں باجود اس کے کہ یہاں بیٹھے کئی لوگوں کے حوالے سے ہمارے شدید تحفظات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کا ایک شیوہ رہا ہے، یہ اسمبلی کا آٹھواں سیشن ہے اور پارلیمنٹ میں یہ نویں قانون سازی ہورہی ہے، جب بھی قانون سازی ہوتی ہے آپ رول کو معطل کرواتے ہیں، آپ یکمشت تمام رپورٹیں اور بل رکوا دیتے ہیں اور اس بحث کے بغیر قوانین کو پاس کروا دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے سے آئین کی کون کون سی دفعات متاثر ہوئیں؟
گوہر خان نے کہا کہ اسمبلی میں بیٹھے حکومتی ارکان کو بھی نہیں پتا ہوتا کہ کون سی قانون سازی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی جانے والی قانون سازی آئین و قانون کے خلاف ہے، جس طریقے سے فارم 47 کو تبدیل کرکے حکومت بنائی گئی، اسی طریقے سے اب کوشش کی جارہی ہے کہ مخصوص نشستیں بھی حاصل کرلیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری 78 مخصوص سیٹیں تھیں جن میں 67 نشستیں خواتین اور 11 اقلیتی نشستیں تھیں جس کے لیے ہم نے 4 درخواستیں الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں ہوا یہ تھا کہ جس وقت ہم نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اس وقت فارم 33 بھی آیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ تمام امیدوار پاکستان تحریک انصاف کے تھے، یہ سپریم کورٹ کے ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔
’قانون سازی غیرقانونی، سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے‘
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جب ہم نے کاغذاتی نامزدگی جمع کرادیے تو اس کے بعد ایک سازش کے تحت پی ٹی آئی سے انتخابی نشان لیا گیا اور پارٹی امیدواروں کو آزاد امیدواروں کے طور پر انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو جو مخصوص نشستیں ملیں، رول آف لا یہی ہے، یہی پارلیمانی و جمہوری اقدار ہیں، ہم الیکشن کمیشن گئے، ہائیکورٹ گئے، سپریم کورٹ گئے جہاں 11 ججز نے رائے دی کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی، ہے اور رہے گی اور تسلیم کیا کہ ان مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کا ہی حق تھا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ تصفیہ کا طریقہ کار بھی یہی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے، یہ پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن قانون کی تشریخ کرنا سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ہے، اگر سپریم کورٹ تشریح کرتی ہے تو وہی حتمی ہوتی ہے، یہ پارلیمان اس تشریح کو ختم نہیں کرسکتی، آپ صرف قانون سازی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر قانون سازی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس قانون سازی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ اس قانون سازی کو ختم کردے گی۔