‘شاہ عالمی کئی ہفتوں تک جلتا رہا اور کئی مہینوں تک سلگتا رہا’

جمعہ 9 اگست 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لوہاری دروازے کی اپنی ایک تاریخ ہے۔کتنے  زمانوں سے آباد چلا آتا ہے۔ کیسے کیسے ناموروں کا مسکن رہا ہے۔کتنے ہی تاریخی واقعات کا امین ہے۔ اس کی کہانی کئی لوگوں نے بیان کی ہے لیکن اسے ابھی کسی حکیم احمد شجاع کا انتظار ہے جو بھاٹی کی طرح اس کے بارے میں کتاب لکھ سکے۔

اس وقت ہم نے لوہاری دروازے کے صرف ایک گوشے چوک متی پر  بات کرنی ہے جس کے پہلو بہ پہلو دوسرے واقعات کا ذکر بھی رہے گا۔

شخصیات کی بات کریں تو پنجابی کے مہان شاعر استاد دامن چوک متی  کی جَم پَل تھے۔ اردو کے نامور فکشن نگار کرشن چندر کا پڑاؤ بھی چوک متی میں رہا۔ انہیں اس جگہ سے بڑی محبت تھی۔ ان کے افسانے ‘ لاہور کی گلیاں’ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے :

 ‘لاہور میں لوہاری گیٹ کے اندر ایک چوک ہے۔ چوک متی۔ اس چوک متی کے اندر، ہماری گلی تھی کوچہ پیر شیرازی۔ ‘

افسانے میں اس گلی کے ان ساکنوں کے بارے میں کرشن چندرنے بیان کیا ہے، جو بڑے کھلے ڈلے ذہن کے مالک تھے اور بنا کسی تعصب کے زندگی گزار رہے تھے۔ اس میں دتے موچی، چندو پان والے، غلام قادر رنگ ساز، بچن سنگھ بڑھئی اور دھنونتری حکیم کا ذکر ہے۔

چوک متی میں کتابوں کی ایک دکان بھی تھی جس کا احوال کرشن چندر نے بڑے دل نشیں پیرائے میں رقم کیا ہے:’ ۔۔۔۔ ذرا آگے جا کر جے ایس سنت سنگھ کی کتابوں کی دکان تھی۔ جے ایس سنت سنگھ، قرآن مجید چھاپتے تھے۔ ان کے پاس اگر چھ پیسے کا اردو قاعدہ خریدنے بھی جانا پڑے تو جوتے باہر اتار کر دکان میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ وہاں بھورے بھورے کاغذوں پر میلی میلی جلدوں کے اندر سینکڑوں کتابیں تھیں، جن سے بانس کی سوندھی سوندھی مہک آتی تھی۔ دکان کی دیوارسے لگے ہوئے لکڑی کے بکسے کو سامنے رکھے ایک بڈھا منیم آنے پائیاں اس تقدس سے گنتا تھا، جیسے وہ آنے پائیاں نہیں، مالا کے منکے گن رہا ہو۔ ‘

جے ایس سنت سنگھ کی دکان کرشن چندر کے افسانے میں ہے لیکن وہ خود افسانہ نہیں ایک حقیقت تھی۔اسے کرشن چندر نے تخلیقی عمل سے دوام بخشا ہے تو ریختہ نے اس ادارے کی بہت سی کتابیں اپنی ویب سائٹ پر محفوظ کرکے قابلِ قدر کام کیا ہے۔

‘اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ‘

کتابوں میں بھی اس تاریخی دکان کا تذکرہ محفوظ ہے۔

حزیں کاشمیری کی کتاب ‘ کہاں گئے وہ لوگ ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ استاد ہمدم( استاد دامن کے استاد)  جے ایس سنت سنگھ کے لیے کام کرتے تھے ۔پنجابی کتب کے متن کی تصحیح کا کام ان کے سپرد تھا۔ طبع زاد کتابیں بھی لکھیں۔ استاد ہمدم نے حزیں کاشمیری کو بتایا:

‘سردار سنت سنگھ میرے بہت گرویدہ تھے اور میرے اور ان کے درمیان گھر والوں جیسے مراسم ہو گئے تھے۔ ‘

معروف تاریخ دان احمد سعید کی کتاب ‘لاہور ، اک شہر بے مثال’  میں بھی جے ایس سنت سنگھ کا حوالہ موجود ہے۔

چوک متی بڑی شخصیات کا مسکن رہا لیکن جن کا یہاں قیام نہیں تھا ان کے لیے بھی یہ علاقہ فیض رساں ثابت ہوا۔ اس سلسلے میں ایک بڑا نام کوچہ چابک سواراں کے مکین اور ممتاز  مصور عبدالرحمان چغتائی کا ہے۔ ادبی جریدے’فنون’ ( اپریل 1963 )میں اپنے مضمون ‘ میرا فن اور شاعر مشرق’  میں انہوں نے بتایا:’ میں ہر شام چوک متی جاتا تھا اور کباڑیوں کی دکانوں سے مطالعے کے لیے غذا حاصل کرتا تھا۔’

چغتائی نے لکھا:

‘چوک متی ان دنوں کباڑیوں کا بازار کہلاتا تھا۔ ہندو مسلمان بلکہ ایک آدھ سکھ کباڑیا بھی وہاں نظر آجاتا تھا۔ یہ لوگ انگریزوں کے بنگلوں سے فرنیچر اور کراکری کے علاوہ آرٹ پر کتابیں اور رسالے فروخت کے لیے لاتے تھے اور ان دنوں میرے جیسے کم وسائل لوگوں کے مطالعہ کا یہی ایک ذریعہ تھا کہ کباڑیوں کی کتابوں اور رسالوں سے استفادہ کیا جائے۔’

یعنی ایک طرف جے ایس سنت سنگھ کی دکان کی صورت میں چوک متی نئی کتابوں کا مرکز تھا تو دوسری طرف پرانی کتابوں اور رسالوں کے جویا بھی ادھر کا رخ کرتے تھے۔

کرشن چندر کے لاہور سے عشق کی داستان معروف ہے۔ انہوں نے احمد ندیم قاسمی کے نام خط میں لاہور کے بارے میں کیسی خوبصورت بات لکھی تھی: ‘لاہور کا ذکر تو کجا اس کافر ادا شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔’

کرشن چندر کے بھائی مہندر ناتھ افسانہ نگار تھے۔ ایک وقت میں دونوں کی چوک متی میں سکونت رہی۔ ان بھائیوں کی ادبی تگ و تاز اپنی جگہ لیکن سیاسی لحاظ سے بھی یہ بیدار مغز تھے۔ دونوں کے ہاں سیاسی جذبے کی ایک ایک مثال ہم پیش کرتے ہیں۔

 تیس اکتوبر  1928ء کو  سائمن کمیشن کے اراکین لاہور پہنچے تو ریلوے اسٹیشن پر لالہ لاجپت رائے کی قیادت میں زبردست احتجاج ہوا۔ ‘سائمن گو بیک’  کے نعرے لگانے والوں میں کرشن چندر بھی شامل تھے۔  لاٹھی چارج کی زد میں بھی وہ آئے۔ لاٹھی چارج سے مضروب لالہ لاجپت رائے نے شام کو موری دروازے کے باہر جلسے سے خطاب کیا تو سامعین میں کرشن چندر بھی شامل تھے۔

پولیس کے تشدد کی وجہ سے لاجپت رائے کی طبیعت سنبھل نہ سکی اور سترہ نومبر 1928 کو وہ  زندگی کی بازی ہار گئے۔  ان کی موت کے ردعمل میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے انگریز پولیس افسر سانڈرس کو ٹھکانے لگا دیا۔ اس پاداش میں بھگت سنگھ ،راج گرو اور سکھ دیو تختہ دار پر پہنچے۔ ان کی موت سے اہل لاہور دل گرفتہ ہوئے۔ ان کے جذبات اور شہر کے حالات کی خبر  مہندر ناتھ کے ایک بیان سے ہوتی ہے جس میں چوک متی کا حوالہ بھی ہے:

’میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا اور وہ بھی لاہور میں۔ ان دنوں کرشن جی اور میں چوک متی میں رہتے تھے۔ وہ تاریخ تو یاد نہیں مگر وہ شام یاد ہے جس شام بھگت سنگھ کی پھانسی کی خبر سارے قیود وبند کی طنابیں توڑتی ہوئی لاہور میں پھیل گئی اور لوگوں کا جم غفیر لاہور کی گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں ابل پڑا۔ وہ کون سی طاقت تھی جو مجھے اس جلوس میں کھینچ لائی، اور میں انارکلی سے گزرتا ہوا بھگت سنگھ زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا دریائے راوی کی طرف بڑھا، اس دن اس جلوس پر گولی چلائی جاسکتی تھی، شاید میں گولی سے اڑا دیا جاتا۔ میں نے پیدل چوک متی سے دریائے راوی تک سفر کیا، اس رات میں نے بھگت سنگھ کے والد کرشن سنگھ  کی تقریر سنی۔ وہ واقعہ میرے ذہن میں ایک کیل کی طرح گڑا ہوا ہے۔‘

کرشن چندر نے ‘ لاہور کی گلیاں’ میں اس زمانے کے چوک متی اور کوچہ پیر شیرازی کو تو یاد کیا ہی جب سب ایک جگہ رہتے تھے۔مذہب مختلف لیکن آپسی تعلقات میں تیر میر نہیں تھی۔لیکن تقسیم کے ہنگام فسادات کی دلخراش داستان لکھتے وقت بھی اس علاقے کو وہ بھولے نہیں۔ افسانوں کے مجموعے ‘ ہم وحشی ہیں’ میں شامل افسانے  ’اندھے‘  کا محل وقوع چوک متی اور کوچہ پیر شیرازی ہی ہیں ۔افسانے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا بیان ہے جس میں دوسروں کی جان لینے کی بہیمت  کا ذکر ہے  اور ردعمل کی نفسیات کا اظہار بھی جس کی بنا پر مسلمان نوجوان انتقام کے جذبے سے شاہ عالمی کی طرف روانہ ہوتا ہے جو ہندوؤں کا گڑھ تھا۔ افسانہ یہاں پر ختم ہو جاتا ہے لیکن  شاہ عالمی میں لگنے والی آگ کی طرف اشارہ کر جاتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چوک متی سے ہی بھڑکی تھی۔

شاہ عالمی سے اٹھنے والی آگ کی تخلیقی گواہی مستنصر حسین تارڑ نے  اپنے ناول ‘ راکھ’ میں ان الفاظ میں دی ہے:

‘شاہ عالمی کئی ہفتوں تک جلتا رہا اور کئی مہینوں تک سلگتا رہا … دن کے وقت شاہ عالمی جلتا ہوا سنائی دیتا اور رات کو وہ دکھائی دیتا تھا… لاہور کا آسمان تمام رات روشن رہتا اور اس آسمان پر شاہ عالمی کی جانب سے سیاہ سندیسے اڑتے ہوئے آتے۔ ملبوسات اور بہی کھاتے، کتابوں کے جلے ہوئے اوراق آسمان پر ایسے سیاہ پرندوں کی طرح بے بسی سے اڑتے اور شہر لاہور کی چھتوں پر دھیرے دھیرے بیٹھتے جیسے ان کے پر کٹ چکے ہوں۔ آسمان کی مسلسل سرخی میں یہ جلی ہوئی راکھ اڑتی پھرتی۔’

شاہ عالمی میں آگ کا حوالہ  ہندی کے نامور لکھاری  یش پال کے ناول ‘ جھوٹا سچ ‘ میں بھی ہے۔ تقسیم کے بارے میں یہ ناول انسانی کیفیتوں کی رستاخیز کا عمدہ بیان ہے۔ اسے میں نے منیرہ سورتی کے اردو ترجمے کی صورت میں پڑھا ہے۔ ایک ٹکڑا آپ بھی دیکھیے جو  شاہ عالمی سے اٹھنے والے شعلوں کی حدت دور تک پہنچنے کی کہانی سنا رہا ہے:

‘ آگ شاہ عالمی دروازے کے اندر بازار میں لگی ہے۔ آدھی رات سے آگ لگی ہوئی ہے۔ آگ کی لپٹیں گوالمنڈی میں دکھائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ میل بھر دور ہے لیکن گوالمنڈی میں بھی چراندھ اور ہوا میں بھی گرمی آرہی ہے۔ آگ کی لپٹوں سے آسمان میں اڑے ہوئے  چیتھڑے یا کاغذوں کے ٹکڑے راکھ بن کر گرنے سے گوالمنڈی میں چھتیں بھر گئی ہیں۔’

بات چوک متی سے شروع ہو کر شاہ عالمی میں بھڑکائی جانے والی آگ تک پہنچی جس سے شمس الرحمٰن فاروقی کے اس شعر کا خیال آیا:

اب کے دھویں میں خون کی سرخی کا رنگ ہے

یوں ان گھروں میں پہلے بھی لگتی رہی ہے آگ

آخر میں چوک متی کی وجہ تسمیہ کے بارے میں یونس ادیب کی کتاب ’میرا شہر لاہور‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو :

‘چوک متی مرحوم متی بائی کے نام سے مشہور ہے جو اپنے زمانے کی مشہور طوائف تھی اور اس کا چار منزلہ نانک چندی اینٹوں سے بنا ہوا مکان زمانے کے سردو گرم کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp