معلومات تک رسائی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو شادی اور طلاق کی رجسٹریشن کروانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی بڑی وجہ اس کے طریقہ کارکے بارے میں معلومات کا کسی بھی سرکاری ادارے کی ویب سائٹ یا دفتر میں آویزاں نہ ہونا ہے۔ یوں اقلیتی برادری ایجنٹ مافیا کے ہاتھوں کئی سو گنا زائد رقم ادا کرکے شادی اور طلاق کی رجسٹریشن کروانے پر مجبور ہے۔
پاکستان کے تمام صوبوں اور وفاق میں معلومات تک رسائی کے قوانین موجود ہیں، ان کی روشنی میں بھی معلومات کو زیادہ سے زیادہ فراہم کرنا ضروری ہے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ سرکاری اداروں کی ویب سائٹس پر بھی آر ٹی آئی کے نام کی ٹیب موجود ہے جس میں صرف اس کی تعریف اور طریقہ کار بیان کرکے جان چھڑالی گئی ہے۔
احمر مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں میرج رجسٹریشن کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس حوالے سے مستند معلومات نہیں، جس کے باعث انہیں اپنے بچوں کی میرج رجسٹریشن کے لیے ایجنٹ کو 10 ہزار روپے ادا کرنا پڑے اور اس کی رجسٹریشن میں بھی 2 ماہ لگ گئے۔
سجان سنگھ لاہور کے رہائشی ہیں اور سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پنجاب میں شادی کی رجسٹریشن کا طریقہ کار تو معلوم نہیں مگر اتنا جانتے ہیں کہ سکھ برادری پاکستان میں وی وی آئی پیز ہیں۔ ان کے گردوارے سے جاری ہونے والا سرٹیفیکیٹ نادرا کے لیے قابل قبول ہے اور اس پر نادرا ان کی شادی کا شناختی کارڈ میں اندراج کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں:لاہور ہائیکورٹ: شادی کیلئے لڑکے لڑکی کی عمر میں فرق کی شق کالعدم، قانون میں ترمیم کا حکم
ہم نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت اقلیتوں کی شادی اور طلاق کی رجسٹریشن کے متعلق مصدقہ معلومات حاصل کرنے کے لیے محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور کو درخواست دی مگر انہوں نے پہلے درخواست اس بنا پر واپس کردی کہ اس پر تاریخ درج نہیں اور درخواست دہندہ خود کو پاکستانی ثابت کرے۔ دوبارہ اعتراض دور کرکے درخواست بھیجنے پر ان کا کہنا تھا کہ ان معلومات سے ان کے محکمہ کا کوئی تعلق نہیں۔
پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور، جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر داد رسی کرنی ہے، پنجاب میں مذہبی اقلیتیں کو معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہونے والی کسی ناانصافی کا نوٹس لینا ہے، اس کے پاس ایسی بنیادی معلومات کا نا ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے۔ نیز یہ کہ یہی محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور، کرسچن میرج لائسنس جاری کرتا ہے پھر سوال یہ ہے کہ اپنے لائسنس ہولڈر کو کیا معلومات فراہم کرتا ہوگا؟ جس مقصد کے لیے لائسینس جاری کیا جارہا ہے؟
معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت مذہبی اقلیتیں کی شادی اور طلاق کی رجسٹریشن کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک درخواست نادرا کو بھی بھیجی گئی۔ جس پر انہوں نے معلومات دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے لکھا کہ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، ہم صرف لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے اقلیتوں کی شادی اور طلاق کی رجسٹریشن کے لیے ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کرنے اور ملک بھر میں رہنے والے افراد کا ڈیٹا بیس رکھنے والے ادارے نادرا کے پاس معلومات نہ ہوں کہ ان کی رجسٹریشن کے لیے کن کن ڈاکومنٹس کی ضرورت ہے یا کن مراحل سے گزرنا ہوتا ہے؟ تو وہ اتنا بڑا ڈیٹا بیس کس بنیاد پر چلا رہے ہیں؟
مزید پڑھیں:سوشل میڈیا ملاپ: چینی باشندے کے جتن کامیاب، کیلاشیوں نے بیٹی بیاہ دی
معلومات فراہم نہ کرنے پر ہم نے اس کی کمپلین پاکستان انفارمیشن کمیشن کو کردی ہے۔ امید ہے کہ وہ جلد ان سے مطلوبہ معلومات لے دیں گے۔ ایک اور درخواست لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ پنجاب کو دی ہے، جس میں یہی معلومات مانگی گئیں مگر ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے اور پنجاب انفارمیشن کمیشن کو کمپلین کے باوجود تاحال معلومات نہیں مل سکیں۔
پنجاب میں مذہبی اقلیتوں کے لیے مختلف نئے قوانین یا پرانے قوانین ترامیم کے ساتھ نافذ ہوچکے ہیں۔ انکے رولز آف بزنس منظور ہونے کے بعد پنجاب بھر میں مسیحی برادری کے لیے پادری اور بشپ، سکھ برادری کے لیے گرنتھی جبکہ ہندو کمیونٹی کے لیے پنڈت اور مہاراج رجسٹرڈ کیے جائیں گے۔ انہیں مسلم نکاح خواہوں کی طرح رجسٹر دیے جائیں گے اور ان کے ذریعے کرائی گئی شادیوں کو یونین کونسل میں رجسٹرڈ کیا جاسکے گا۔
یونین کونسل کی سطح پر مذہبی اقلیتوں کی شادی اور طلاق کی رجسٹریشن کی ضرورت کیوں؟
پاکستان میں بسنے والی اکثریت کی طرح اقلیتوں کو بھی لوکل گورنمنٹ سے متعلقہ سروسز یونین کونسل کی سطح پر دستیاب ہونا ان کا بنیادی حق ہے۔ ان کی شادیاں یونین کونسل میں رجسٹر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کے ب فارم بنوانے اور دیگر دستاویزات بنوانے میں انہیں کافی دقت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس کی رجسٹریشن کے لیے میلوں سفر کرنا پڑتا ہے جو سب کے لیے ممکن نہیں۔
پنجاب میں سکھ برادری کی شادی کیسے رجسٹر ہوتی ہے؟
پنجاب میں جولائی 2024 سے پہلے سکھ برادری کی رجسٹریشن کے لیے متعلقہ گردوارہ سرٹیفکیٹ جاری کرتا تھا جو یونین کونسل کی بجائے براہ راست نادرا کے لیے قابل قبول تھا۔ اس کے لیے گردوارہ مذہبی رسومات کے مطابق شادی کرواتا ہے اور اس کا ریکارڈ ایک رجسٹر پر رکھتا ہے۔ جس کی پرت وہ دلہا دلہن کو بھی دیتے ہیں۔ جسے وہ یونین کونسل میں میاں بیوی اور ان کے والدین کے شناختی کارڈ کی کاپیاں جمع کروا کر کمپیوٹرائزڈ میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نامہ حاصل کرلیتے ہیں۔ جس کی فیس 3 سو روپے ہے۔ جو ناردا سے خدمات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے، مثلاً شناختی کارڈ میں میاں یا بیوی کے نام کے اندراج کے لیے، بچوں کے ب فارم بنوانا وغیرہ۔
مزید پڑھیں:کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم کا آغاز
وزیر اقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ کا کہنا ہے کہ پنجاب سکھ آنند کراج میرج رجسٹرار رولز 2024 اور پنجاب سکھ آنند کراج میرج رولز 2024 کی منظوری دے دی ہے۔ جس کے بعد پنجاب دنیا بھر میں سکھ میرج ایکٹ نافذ کرنیوالا پہلا صوبہ بن گیا ہے، انڈیا میں بھی سکھوں کو ہندو ایکٹ کے تحت میرج رجسٹرڈ کرانا پڑتی ہے۔
پنجاب میں مسیحی برادری کی شادی کیسے رجسٹر ہوتی ہے؟
پاکستان میں مسیحی برادری کے لیے کرسچن میرج ایکٹ 1872 اور ڈیورس ایکٹ 1869 موجود ہیں۔ مسیحی برادری کا مطالبہ رہا ہے کہ ان کی شادیاں یونین کونسل کی سطح پر رجسٹرڈ ہوں تاکہ انہیں قومی شناختی کارڈ، بچوں کے ب فارم سمیت دیگر قانونی دستاویزات تیار کروانے میں مدد مل سکے۔
جنوری 2019 میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایک فیصلے میں مسیحی برادری کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کا حکم جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے یونین کونسلوں کو بھی پابند کیا کہ وہ مسیحی برادری کی شادیوں کی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں اور متعلقہ اداروں کو پابند کیا کہ وہ مسیحی برادری کی شادی سے متعلق میرج سرٹیفیکیٹ بھی جاری کریں۔
کرسچن میرج لائسینس، کرسچن میرج ایکٹ 1872 کے سیکشن 9 کے تحت محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور جاری کرتا ہے۔ جس کے لیے درخواست کے ہمراہ درخواست گزار کے شناختی کارڈ کی کاپی، کم از کم میٹرک تعلیم، پولیس رپورٹ، متعلقہ چرچ سے ریکومنڈیشن لیٹر، کمیونٹی میمو(2 سو مقامی افراد کے انگوٹھے کے نشان یا دستخط) اور درخواست گزار کی 3 عدد پاسپورٹ سائز تصاویر درکار ہوتی ہیں۔ کرسچن میرج لائسینس کی معیاد 5 سال ہے جسے بعد میں رینیو کروانا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:اب تک کی مختصر ترین شادی، صرف 3 منٹ میں طلاق، وجہ کیا بنی؟
شادی کے لیے دلہا دلہن متعلقہ رجسٹرڈ چرچ میں درخواست دیتے ہیں جس کے بعد کرسچن کمیونٹی کے مذہبی طریقہ کار کے مطابق مختلف 3 چرچ میں اعلانات یا منادی کروائی جاتی ہے اور چوتھی منادی شادی کی تقریب کے وقت کی جاتی ہے۔
اس کے بعد کرسچن میرج لائسینس رکھنے والے فادر/ بشپ/ پاسچر متعلقہ رجسٹر پر اس شادی کا اندراج کرتے ہیں اور اس کی ایک پرت دلہا دلہن کو دے دیتے ہیں۔ یہ پرت وہ یونین کونسل میں دیکھا کر کمپیوٹرائزڈ میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں جو بعد از نادرا میں جمع کروا کر میاں یا بیوی کے شناختی کارڈ میں اندراج اور بچوں کے ب فارم وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
کمپیوٹرائزڈ میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کی فیس 3 سو روپے ہے۔ اس کے حصول کے لیے کرسچن میرج لائسینس ہولڈر کی جانب سے ملنے والی پرت، دلہا ،دلہن اور ان کے والدین کے شناختی کارڈ کی کاپی کی ضرورت ہوتی ہے۔
پنجاب میں بہت سی یونین کونسلز معلومات کی کمی کے باعث اسے مقامی سطح پر رجسٹر کرنے سے انکار کررہی ہیں۔ چند یونین کونسلز دلہا دلہن سے دوبارہ ایک بیان حلفی لے کر کمپیوٹرائزڈ میرج رجسٹریشن سرٹیفکیٹ دیتے ہیں۔
اس حوالے سے جب ہماری بات وزیر اقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ سے ہوئی تو انکا کہنا تھا کہ کرسچن میرج قوانین پر کام ہورہا ہے ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت کے لیے بلایا ہے۔ تمام متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد امید ہے دسمبر 2024 تک اس پر کام مکمل کر لیں گے اور کابینہ سے منظوری کے بعد اسے نافذ کردیں گے۔
پنجاب میں ہندوکمیونٹی کی شادی کیسےرجسٹر ہوتی ہے؟
پاکستان میں ہندو کمیونٹی کی شادی کے لیے ہندو میرج بل 2017 موجود ہے۔ اس کے باوجود ملک بھر میں ہندو کمیونٹی کو شادیوں کی مقامی سطح پر رجسٹریشن کے لیے مسائل کا سامنا ہے۔ اس وقت رائج طریقہ کار کے مطابق ہندو پنڈت اپنے لیٹر ہیڈ پر میرج سرٹیفکیٹ بناتا ہے جس میں دلہا دلہن، ان کے والدین اور گواہوں کے کوائف درج ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں:مسجد و مندر کے درمیان آباد پاکستان کا وہ گاؤں جہاں بجلی نہیں جاتی
اس کی کاپی یونین کونسل میں جمع کروانے پر دلہا دلہن کو کمپیوٹرائزڈ میرج رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ جس کی فیس 3 سو روپے ہے، دے دیا جاتا ہے۔ بعدازاں یہ سرٹیفیکیٹ نادرا سے کسی بھی قسم کا ریکارڈ شناختی کارڈ میں تبدیلی کروانے کے کام آتا ہے۔ تاہم بہت سے یونین کونسلز معلومات کی کمی کے باعث شادیوں کی رجسٹریشن کو مشکل بنا دیتی ہیں۔
امرناتھ رندھاوا، پاکستان ہندو مندر منیجمنٹ کمیٹی کے ممبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو میرج کی رجسٹریشن کے لیے قانون کا ڈرافٹ بہت عرصہ قبل بن چکا ہے مگر ابھی تک منظور نہیں ہوسکا۔ انہوں نے دیگر ساتھیوں سے مل کر موجودہ وزیر اقلیتی امور کو دوبارہ اس کا مسودہ بھیجا ہے تاکہ اس کی جلد منظوری ہوسکے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ایک بڑا مسئلہ میرج رجسٹریشن کی اہمیت سے متعلق آگاہی کا بھی ہے، بہت سے خاندان اس کی رجسٹریشن کو اہم نہیں سمجھتے۔ تاہم کسی جگہ اس کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑنے پر ایجنٹ مافیا کے ہاتھوں اپنے ہزاروں روپے گنواتے ہیں۔ اس حوالے سے ہندو کمیونٹی کے مذہبی رہنماوں کا کردار اہم ہے۔
رجسٹریشن کے طریقہ کار کو مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بل کی منظوری سے پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی کا مسئلہ بھی حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس حوالے سے جب ہماری بات وزیر اقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہندو میرج ایکٹ کے رولز آف بزنس پر کام ہو رہا ہے ہم جلد کابینہ سے منظوری کے بعد اس پر عمل شروع کریں گے۔