100 سے زائد ٹیکسٹائل ملز بند ہونے کی خبریں، حقیقت کیا ہے؟

منگل 20 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بندش کا بہت چرچا ہورہا ہے اور لوگ اس حوالے سے تشویش کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ 100 سے زیادہ ٹیکسٹائل ملز بند ہونے سے ہزاروں، لاکھوں بے روزگار ہوجائیں گے۔

اس حوالے سے ہم نے ٹیکسٹائل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اس شعبے کی مشکلات  کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مختلف انڈسٹریل گروپس کے کچھ یونٹس بند ہوئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ سارا ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہوگیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر کسی انڈسٹری کا ایک یونٹ بند ہو تو اس سے یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ تمام کی تمام انڈسٹری بند ہوچکی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں جن 100 انڈسٹریل یونٹس کے بند ہونے کی خبر دی گئی ہے وہ گزشتہ 2 برس کے دوران بند ہوئی ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق طیب کہتے ہیں کہ 40 فیصد پیداوار میں کمی کا یہ مطلب نہیں کہ آدھی انڈسٹری بند ہوچکی ہے بلکہ مختلف انڈسٹریوں کے کچھ یونٹس بند ہوئے ہیں جس میں مختلف عوامل شامل ہیں۔

خبر کیا ہے؟

ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے میڈیا پر خبریں اس وقت سامنے آئیں جب اس شعبے کے ایک بڑے ادارے نے اپنے دوسرے انڈسٹریل یونٹ کو بند کردیا جس سے لگ بھگ 900 کے قریب مزدور بے روزگار ہوئے۔ پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چوہدری سلامت علی کے مطابق اب تک ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مختلف یونٹس کے بند ہونے سے ڈیڑھ سے 2 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے ہیں۔

اگر گزشتہ مالی کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات میں 0.93 فیصد اضافہ ہوا جو 16.55 ارب ڈالر رہیں جبکہ اس سے پچھلے برس یعنی مالی سال 23-2022 میں یہی برآمدات 16.50 ارب ڈالر تھیں۔ تاہم گزشتہ 2 برسوں سے قبل یہی برآمدات کورونا کے بعد 22-2021 میں زبردست اضافے کے سبب 19.3 ارب ڈالر تک بھی گئیں تھیں۔ یعنی مالی سال 22-2021 کے مقابلے میں گزشتہ 2 سالوں کی برآمدات میں کمی تو آئی ہے لیکن گزشتہ برس اس میں دوبارہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔

کیا ستارہ ٹیکسٹائل بند ہوگئی ہے؟

ستارہ ٹیکسٹائل مل کا شمار پاکستان کے چند بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ گروپ 1956 میں ٹیکسٹائل پروسیسنگ کے ساتھ شروع ہوا اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے ایک معروف صنعت بن گیا اور اب ایک گروپ آف انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

ستارہ ٹیکسٹائلز مقامی مارکیٹ کو سپلائی کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مارکیٹوں کو کی جانے والی برآمدات میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کے برعکس یہ گروپ آف انڈسٹری بند نہیں ہوئی، البتہ ان کے 2 یونٹس بند ہوئے ہیں۔

ستارہ ٹیسکٹائل کے 2 یونٹ بند ہونے کے بعد میڈیا میں کچھ خبروں سے یہ تاثر ملا کہ جیسے ستارہ ٹیکسٹائل مل مکمل طور پر بند ہوچکی لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ستارہ گروپ میں شامل دیگر تمام یونٹس کام کررہے۔

روزگار کی فراہمی میں ٹیکسٹائل کا حصہ

ٹیکسٹائل پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ پاکستان میں مینوفیکچرنگ سیکٹر تقریباً 1 کروڑ 18 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے جس میں سے ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ 40 فیصد تک ہے۔ یعنی 40 لاکھ سے زائد افراد اس شعبے میں کام کرتے ہیں۔

پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکڑ کی تاریخ

پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی ترقی کرنا شروع کردی تھی اور یہ آج بھی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شعبہ ایک طویل عرصے سے پاکستانی معیشت کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ڈالتا چلا آرہا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بنیادی ڈھانچہ بہت محدود تھا۔ اس وقت پاکستان میں کپڑا بنانے کے چند ہی کارخانے تھے، جو زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر کام کررہے تھے۔ تاہم جلد ہی اس صنعت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں اور اولین 2 دہائیوں میں اس انڈسٹری نے بہت تیزی سے ترقی کی۔

1950 اور 1960 کی دہائی میں کئی بڑی ٹیکسٹائل ملز کا قیام عمل میں آیا اور یہ سلسلہ اگلی کئی دہائیوں تک بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے چلتا رہا۔ حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی اور مختلف مراعات فراہم کیں، جس سے اس شعبے نے مضبوطی اختیار کی۔ تاہم موجودہ دور میں پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں توانائی کے بحران، سیاسی عدم استحکام، شرح سود میں اضافہ اور عالمی منڈی میں سخت مقابلہ شامل ہیں۔

پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پربحران کے کچھ ادوار

1990 کی دہائی میں بجلی اور گیس کی فراہمی میں عدم استحکام کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی کمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی آئی اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

2007 اور 2008 کے دوران آنے والے عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے عالمی سطح پر طلب اور رسد میں کمی واقع ہوئی جس کا اثر پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر بھی پڑا۔ 2010 میں بجلی کی قلت اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث اس انڈسٹری کو بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

2018 سے 2020 کے دوران پاکستان کے ٹیکسٹائل کے شعبے کو ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی، پیداواری لاگت میں اضافہ اور عالمی منڈی میں مقابلہ بازی کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس انڈسٹری کی مشکلا ت میں مزید اضافہ ہوا۔

کورونا وائرس کی اس وبا نے عالمی سطح پر سپلائی چین کو متاثر کیا جس کی زد میں دیگر شعبوں کے ساتھ یہ انڈسٹری بھی آئی، تاہم اس کے خاتمے کے بعد مالی سال 22-2021 میں اس شعبے نے بہت اچھی پرفارمنس دکھائی۔

2022 سے پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کی فضا نے اس شعبے کے مسائل میں کچھ اضافہ کیا جس حوالے سے پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق طیب کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری مسائل شکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جولائی میں ہماری برآمدات میں 3 فیصد کمی واقعی ہوئی ہے۔ اس وقت یہ انڈسٹری اپنی گنجائش سے 40 فیصد کم پر چل رہی ہے تاہم یہاں پر یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم 40 سے 50 فیصد کم کیپسٹی پر چل رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انڈسٹری میں 40 سے 50 فیصد ملیں بند کردی گئیں بلکہ اس کے کچھ یونٹ اخراجات بڑھنے کی وجہ سے بند کیے گئے ہیں۔

انہوں نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انڈسٹری چل رہی لیکن ہمارے مسائل بڑھ رہے اور اس کی بنیادی وجہ پیداواری لاگت میں اضافہ ہے۔ ہمیں بجلی کا یونٹ 42 روپے کا مل رہا ہے جبکہ ہم آریل این جی استعمال کررہے جس کے نرخ ساڑھے 7 ڈالر سے 14 ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ دوسری طرف بجلی اور گیس کے نرخ 30 سے 40 فیصد تک بڑھنے سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی کے مطابق شرحِ سود ساڑھے 19 فیصد ہے لیکن اسے سنگل ڈیجٹ میں ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ایف بی آر کے ساتھ ہمارے ریفنڈ کے مسائل بھی موجود ہیں۔

طارق طیب کہتے ہیں کہ اس سے یقینی طور پرجہاں پاکستان کی برآمدات متاثر ہورہی ہیں وہی پر ڈیڑھ سے 2 لاکھ کے قریب مزدور طبقہ بھی بیروزگار ہوا ہے اور حکومت کو اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین رضوان اشرف کہتے ہیں کہ انرجی اور خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے کو مسائل کا سامنا ہے اور گزشتہ سال جب درآمدت پر بڑے پیمانے پر پابندی لگائی گئی تو اس سے زرِمبادلہ میں کمی آئی جس کے باعث بینکوں کی جانب سے ایل سی نہیں کھولی جارہی تھیں جس کے سبب ہمیں باہر سے خام مال منگوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں استعمال ہونے والے بہت سے کیمیکل باہر سے منگوانے پڑتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ کپاس کی پیدوار میں بھی کچھ کمی واقع ہوئی۔ اس سیکٹر کو بہتر کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سیکٹر کو 9 سینٹ کا کا ٹیرف بحال کیا جائے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے ٹیکسز بھی لگائے ہیں جن کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں اس سیکٹر کو بہت قریب سے دیکھنا ہوگا کیونکہ اس سیکٹر کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جو اب ختم ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے میں بحران کی وجوہات

2006 کے بعد جب پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو بین الاقوامی برانڈز اور ان کے نمائندوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستان کے دورے ملتوی کرنا شروع کردیے۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف شہریوں کے محفوظ کام کی جگہوں تک رسائی کو متاثر کیا بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوئے۔

گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلابوں نے پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں کپاس کے کھیتوں کو تباہ کردیا ہے، جس کے نتیجے میں خام مال کی قلت پیدا ہوئی۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی ملبوسات اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں سپلائی چین میں خلل پیدا ہوا اور کپاس کی کمی کو مناسب طریقے سے پورا نہ کیا جاسکا اور اب ٹیکسٹائل کے لیے بیرون ملک سے کپاس درآمد کی جاتی ہے۔

اسی طرح آئے روز کے سیاسی عدم استحکام اور اس سے افراط زر میں ہونے والے اضافے کے سبب پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے اس صنعت کا منافع کم ہوجاتا ہے اور ٹیکسٹائل ملوں کو بند کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں ایک مستحکم حکومت کا قیام اور پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کا یہ اہم شعبہ تنزلی کی بجائے ترقی کرتا رہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp