اسکردو کی انیقہ بانو جنہیں سماعت سے محروم بچوں سے محبت نے صدارتی ایوارڈ کا حقدار بنا دیا

جمعرات 22 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’جس دن ہم پر انکشاف ہوا کہ ہماری بیٹی سننے کی صلاحیت سے محروم ہے، ہمیں لگا کہ جیسے ہمارے اپنے کانوں میں پارہ بھر دیا گیا ہو۔ اسکردو میں ہم نے اپنے ارد گرد گونگے اور بہرے افراد کے ساتھ لوگوں اور زندگی کے ہاتھوں برا سلوک دیکھ رکھا تھا۔ لہذا دن رات یہی فکر گھیرے رکھتی کہ کیا ہماری بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ہم نے یہ ٹھان کر کراچی کی راہ لی کہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اپنی بیٹی کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنائیں گے کہ وہ سماعت سے محروم دیگر لوگوں کے برعکس پروقار زندگی جی سکے۔‘

نرجس خاتون ہیئرنگ امپیئرمنٹ سکول اسکردو کے برآمدے میں کھڑی انیقہ بانو وی نیوز کو اپنی کہانی سنا رہی تھیں۔ یہ وہی انیقہ بانو ہیں جنہیں حکومتِ پاکستان نے صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اس سکول کی شریک بانی ہیں جہاں پورے بلتستان سے آئے 80 سے زائد قوت سماعت و گویائی سے محروم بچوں کو نہ صرف مفت تعلیم اور محبت دی جاتی ہے بلکہ انہیں جدید ہنر سکھا کر باعزت روزگار کمانے کے قابل بھی بنایا جاتا ہے۔

انیقہ نے بتایا کہ ان کے شوہر انجینئر افضل رسول بیٹی کے معاملے میں اُن سے بھی زیادہ پریشان تھے۔

افضل کا کہنا تھا ’خدا کسی کے ہاں معذور بچہ دے کر آزمائش میں نہ ڈالے، لیکن میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے میرے گھر سماعت سے محروم بچی دی جس کی وجہ سے ہم اپنی بیٹی جیسے سینکڑوں اور بچوں کی زندگیاں بدلنے کے قابل ہوئے۔‘

اپنے سفر کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے افضل نے کہا کہ انہوں نے بیٹی کے لیے اسکردو میں اپنا گھر بار چھوڑ کر کراچی میں بسیرا کر لیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کراچی میں قیام کے دوران ان کی بیٹی نے سننا شروع کر دیا۔ شکرانے کے طور پر انہوں نے عہد کیا کہ سماعت اور گویائی سے محروم دیگر بچوں کی زندگیاں آسان بنائیں گے۔

انیقہ کا کہنا تھا کہ کسی معذوری کے ساتھ بچے کی پیدائش ہونا قدرت کی طرف سے آزمائش ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل یہ ہے کہ معاشرے کی طرف سے ایسے بچوں کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں یا کہیں پر ان کے لیے روزگار کا موقع ہو۔

انیقہ نے خصوصی افراد کے حوالے سے اپنے علاقے میں پائے جانے والے عمومی رویوں پر بھی بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کو اپنے نام سے بھی نہیں پکارا جاتا تھا۔ فلاں کا غوٹ یعنی گونگا اور فلاں کا غونمو یعنی بہرا کہہ کر پکارا جاتا تھا، یعنی معاشرے میں ان کو کمتر سمجھا جاتا تھا۔ یہ انیقہ ان کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ وہ ان بچوں کو معاشرے میں دیگر انسانوں جیسا مرتبہ دلوانا چاہتی تھیں۔

انیقہ کہتی ہیں، ’جب میں نے کراچی میں سماعت سے محروم بچوں کو سائن لینگوئج میں ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور بات چیت کرتے دیکھا تو مجھے شدید احساس ہوا کہ ہمارے علاقے کے بچے ایسی سہولت سے محروم کیوں ہیں؟‘

اسی سوچ کے تحت یہ ہمدرد جوڑا اسکردو لوٹا اور اپنے تین کمروں کے گھر میں سے ایک کمرے میں اسکول کی بنیاد رکھ دی۔ اسکول کا نام اپنی سماعت اور گویائی سے محروم بیٹی کے نام پر رکھا گیا۔ صبح انیقہ ملازمت کرتی تھیں اور سہ پہر 2 بجے سے شام 6 بجے تک معذور بچوں کو پڑھاتی تھیں۔

انیقہ کے لیے اس کے بعد بھی پریشانیوں کا سلسلہ رکا نہیں۔ اب انہیں سماعت سے محروم بچوں کا ڈیٹا تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا، جو بقول ان کے ’مربوط شکل میں موجود ہی نہیں تھا۔‘

انیقہ کے مطابق ٓغاز میں انہوں نے محلے کی سطح پر پوچھ گچھ کر کے  معذور بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا، گھر گھر جا کر والدین کو راضی کیا کہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں، پھر دور دراز سے آنے والوں بچوں کو اپنے پاس رہائش دی۔ پھر ڈیٹا جمع کرنے میں بھی احساس پروگرام کے آغاز اور نادرا کے ’ب فارم‘ کی وجہ سے آسانی ہو گئی۔

آج انیقہ اور ان کے شوہر ایک کامیاب اسکول چلا رہے ہیں جہاں 80 سے زائد معذور بچے بھرپور انداز میں زندگی جینے کا ہنر سیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے 40 سے زائد بچے بورڈنگ میں ہیں اور انہی کے گھر میں رہتے ہیں۔

انہی خدمات کے اعتراف میں انیقہ بانو کو صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے، جو 23 مارچ 2025 کو صدر پاکستان کے ہاتھوں دیا جائے گا۔

یہ ایوارڈ ملنے کی خبر انیقہ کو سابق چیف سیکرٹری گلگت بلتستان  اور موجودہ وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین وانی نے دی تھی۔

اس حوالے سے انیقہ کہنا تھا کہ ان کی خدمات کا اعتراف کیے جانے پر وہ حکومت کی شکرگزار ہیں اور امید کرتی ہیں کہ حکومتی کاوشیں محض اعتراف تک ہی محدود نہیں رہیں گی بلکہ عملی طور پر ان کے کاز کو بھرپور اسپورٹ بھی فراہم کی جائے گی۔

اپنی بیگم کو صدارتی ایوارڈ ملنے کے حوالے سے افضل رسول کا کہنا تھا کہ اس ایوارڈ کے پیچھے انیقہ کی جان توڑ محنت ہے۔ کورونا وبا کے دوران جب ان کے پاس کوئی کام والی نہیں تھیں تو وہ رات کے ڈھائی بچے اٹھ کر اسکول کے 50 بچوں کے لیے ناشتہ اور دوپہر کا کھانا بنانا شروع کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی جاب بھی کرتی تھیں اور شام میں اسکول کے بچوں کو پڑھاتی بھی تھیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp