یوکرین جنگ روس کو مہنگی پڑگئی ہے، شکریہ چین

جمعرات 22 اگست 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

روس-چین گیس پائپ لائن کا منصوبہ لٹک گیا ہے۔ سائبیریا ٹو گیس پائپ لائن 2800 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ پائپ لائن التائی گیس پائپ لائن بھی کہلاتی ہے۔

روس کے مغربی سائبیریا سے یہ گیس پائپ لائن شمال مشرق چین تک تعمیر کی جانی ہے۔ روس کے صدر ولادیمر پیوٹن کے دورہ بیجنگ کے بعد خبریں آئی تھیں کہ اس پائپ لائن پر پیشرفت نہیں ہوسکی۔ چین ایک سخت مذاکرات کی صورت میں سامنے آیا۔ روس اپنے صارفین کو گیس کی قیمت پر سبسڈی دیتا ہے اور چین نے اسی سبسڈی کے ریٹ پر روس سے گیس فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

روسی انرجی جائنٹ گیزپرام نے یہ پراجیکٹ چائنہ نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن کے ساتھ مل کر تعمیر کرنا تھا۔ چین کے ساتھ گیس کی قیمت ابھی تک طے نہیں ہوسکی تھی۔ منگولیا کے فیصلے نے پراجیکٹ کو ڈانوا ڈول کردیا ہے۔

روس سے چین تک آتے اس پائپ لائن منصوبے کو منگولیا سے گزرنا ہے۔ منگولیا میں نئی مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے جس نے اپنے اگلے 4 سال کے ترقیاتی پروگرام کی پارلیمنٹ سے منظوری لی ہے۔

ترقیاتی پروگرام میں سائبیریا ٹو کو شامل نہیں کیا گیا۔ سائبیریا ٹو کو تعمیر کے لیے 5 سال درکار ہیں اور یوں اب اگلے 4 سال تک منگولیا میں اس پراجیکٹ پر کوئی کام نہیں ہونا۔ اس طرح یہ پراجیکٹ لمبے عرصے کے لیے لٹک گیا ہے۔

یوکرین کی جنگ کے بعد روسی گیس کی فروخت ایک تہائی رہ گئی ہے۔ فنانشل ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق روسی انرجی کمپنی کو یوکرین کی جنگ سے پہلے والی اپنی سیل تک پہنچنے کے لیے لمبا عرصہ درکار ہے۔ کم از کم 10 سال بعد گیزپرام اس لیول پر دوبارہ پہنچ سکے گی جس لیول پر اس کا مارکیٹ شیئر اور سیل تھی۔

روسی گیس فیلڈ یمال پینیسولا (Yamal Peninsula) سے گیس یورپ کو سپلائی کی جاتی تھی۔ یوکرین جنگ کے بعد جب روس پر پابندیاں لگی تو نئے گاہک کی تلاش میں روس نے ایشیا کا رخ کیا۔ چین تک سائبیریا ٹو پائپ لائن کی صورت ایک متبادل بڑا گاہک ڈھونڈا گیا۔ یہ پائپ لائن چین تک تعمیر ہونی تھی۔

روس پر جو پابندیاں لگی ہیں اس کی وجہ سے کنسٹرکشن کے لیے درکار انفرااسٹرکچر تک بھی روس کی رسائی کم ہوگئی ہے۔ پابندیوں کے شکار روس کے لیے سائبیریا ٹو کے حوالے سے تعطل کی خبریں بڑا دھچکا ہیں۔

چین انرجی کے لیے کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہتا۔ چین کا زیادہ فوکس اب گرین انرجی کی جانب ہے۔ ترکمانستان سے لائن ڈی بھی ایک گیس پائپ لائن پراجیکٹ ہے۔ چین کو روس کی نسبت ترکمانستان زیادہ اچھا آپشن لگتا ہے۔ لائن ڈی کی کنسٹرکشن پر 100 فیصد کنٹرول چین کا ہی ہوگا۔

ترکمانستان کی حکومت کا نظام سادہ ہے جس سے چینی ڈیل بننا زیادہ آسان ہے۔ روسی جنگ اور پابندیوں کا شکار ضرور ہیں، لیکن کوئی کمزور ڈیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ترکمانستان سے چین تک آتی لائن ڈی نے جنوبی چین کو گیس فراہم کرنی ہے جبکہ سائبیریا ٹو نے شمال مغربی چین کے لیے گیس پہنچانی تھی۔ لائن ڈی روسی گیس کے بجائے امریکی اور آسٹریلوی ایل این جی کے مدِمقابل آئے گی۔

جیسے پاک-چین دوستی کو آئرن برادر کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح روس-چین اپنے لیے نو لمٹ فرینڈ شپ کی لائن بولتے ہیں لیکن اس نو لمٹ فرینڈ شپ کے ہوتے ہوئے بھی گیس پائپ لائن کی قیمت پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ جس ملک نے ٹرانزٹ کی سہولت فراہم کرنی ہے وہی پیچھے ہٹ گیا ہے اور روس کو یوکرین جنگ کے بعد یہ پہلا بڑا دھکا لگا ہے۔

چین نے ایک طرح سے امریکا اور ویسٹ کی طرف اور جنگ کے خلاف پوزیشن لی ہے۔ یہ فیصلہ کن بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ روس کے پاس ایک بڑے گاہک کی صورت اب انڈیا ہی باقی بچا ہے۔ مگر ہمارے پڑوسی بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی یوکرین کے دورے پر جارہے ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کی نظر یوکرین کی تعمیرِ نو کے دوران انفرااسٹرکچر حاصل کرنے کے ٹھیکوں پر ہے تو دوسری طرف ان کا ایجنڈا روس یوکرین کے درمیان امن کی بات چیت ہے۔

روس کو دھچکا اس کے حریف ملکوں کے بجائے دوست ممالک بھارت اور چین سے لگا ہے۔ کیا یہ اتنا شدید ہے کہ روس معاشی نقصان دیکھتے ہوئے جنگ سے ہی باز آجائے؟ یہ وقت بتائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp