اقوام متحدہ نے پوری دنیا کو سطح سمندر میں تیزی سے ہوتے اضافے سے خبردار کرتے ہوئے اسے تمام انسانیت کے لیے ہنگامی نوعیت کا بڑھتا ہوا خطرہ قرار دیا ہے۔
عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی ایک رپورٹ کے مطابق، سمندروں کی سطح میں پہلے سے کہیں زیادہ تیزرفتار اور بلند درجے کا اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی رہنما اور ماہرین اس خطرے پر قابو پانے کے اقدامات پر غوروفکر کے لیے 25 ستمبر کو اقوام متحدہ میں جمع ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیاں تباہی پھیلانے لگیں، ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنا ناگزیر
رپورٹ کے مطابق 1980ء کے بعد سمندروں کی سطح میں 20 تا 23 سینٹی میٹر (8 تا 9 انچ) تک اضافہ ہوا ہے، 2023ء میں سمندروں کی سطح 30 سال کی ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی تھی، 1993ء سے 2002ء کے مقابلے گزشتہ دہائی کے دوران سطح سمندر میں 2 گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
سطح سمندر میں اضافہ کیوں؟
سمندر کی سطح میں اضافہ درجہ حرارت بڑھنے اور گلیشیئرز اور برف کی تہیں پگھلنے کے باعث ہوتا ہے، یعنی یہ صورتحال موسمیاتی تبدیلی کے باعث سے جنم لیتی ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ دنیا بھر کے لیے پریشان کن ہے لیکن اس کے باعث موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ اور انتہائی غیرمحفوظ ممالک کا معاشی، سماجی اور ثقافتی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سمندروں کی سطح تیزی سے بلند ، بعض ممالک صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں : سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
سطح سمندر میں اضافے اور سیلاب کے باعث سمندر کے کنارے آباد جزائر اور وہاں بسنے والے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ایسے جزائر میں لوگوں کا روزگار سیاحت سے جڑا ہوتا ہے مگر سیلاب کے باعث ساحلی آبادیوں کے لیے اپنے روزگار کو قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب کہیں ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو لوگ اپنا گھربار چھوڑ کر بالائی علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا ملک سے ہجرت کر جاتے ہیں جس کا نتیجہ معیشتوں، روزگار اور معاشروں کے نقصان کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس صورتحال کو کثیرالجہتی خطرہ قرار دیا ہے۔
سطح سمندر میں اضافہ پاکستان کے لیے بھی خطرناک ہے؟
سطح سمندر میں اضافے سے ترقی پزیر ممالک کو ہی نہیں بلکہ نیو یارک جیسے بڑے شہروں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 90 کروڑ لوگ یا کرہ ارض کی 10 فیصد آبادی سمندری ساحلوں کے قریب رہتی ہے۔ اس صورتحال میں بنگلہ دیش، چین، بھارت، نیدرلینڈز اور پاکستان جیسے گنجان آباد ممالک میں ساحلی علاقوں پر رہنے والے لوگوں کو تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہو گا۔ پاکستان خصوصاً اس کے ساحلی علاقے بڑھتی ہوئی سطح سمندر سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سمندر کے درجہ حرارت میں کمی سے زمین پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں؟
علاوہ ازیں، بنکاک، بیونس آئرس، لاگوس، لندن، ممبئی، نیویارک اور شنگھائی جیسے بڑے شہر بھی خطرے کی زد میں ہیں جبکہ چھوٹے جزائر پر مشتمل نشیبی ممالک کو بڑھتی ہوئی سطح سمندر سے لاحق خطرات دوسروں سے کہیں زیادہ ہیں۔ فجی، وینوآتو اور جزائر سولومن جیسی جگہوں پر رہنے والے لوگ سطح سمندر میں اضافے اور دیگر خطرات سے بچنے کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
سطح سمندر میں اضافہ کیسے روکا جائے؟
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پا کر عالمی حدت میں اضافے کی رفتار کم کی جاسکتی ہے، سطح سمندر میں اضافے کو روکنے کا یہی ایک مؤثر ترین طریقہ ہے۔ علاوہ ازیں، بڑھتی سطح سمندر کو روکنے اور اس سے مطابقت اختیار کرنے کے اقدامات بھی اہم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت میں اضافہ، ماہرین کیا کہتے ہیں؟
اس ضمن میں ماہرین سمندری پانی کو روکنے کے لیے ساحلوں پر پشتوں کی تعمیر، نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے اور سیلاب کا مقابلہ کرنے والی عمارتیں تعمیر کرنے، ساحلی دلدلی جنگلات کو تحفظ دینے، خشکی پر آبی مقامات اور سمندروں میں مونگے کے جزیروں کی حفاظت جیسے اقدامات کی سفارش کرتے ہیں۔
بہت سے ممالک اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اپنے منصوبوں کو بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔ غیرمحفوظ ساحلی علاقوں سے انسانی آبادیوں کو ہٹانا بھی بڑھتی سطح سمندر سے پیدا ہونے والی صورتحال سے مطابقت اختیار کرنے کے اقدامات کا حصہ ہے۔