معاشی طور پر مشکلات سے دو چار ہونے کے باعث پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف دیکھنا پڑتا ہے تا کہ ڈوبتی معیشت کو کچھ سہارا دیا جاسکے، معاشی ماہرین اس معاملے پر ہمیشہ سے متنبہ کرتے رہے ہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوئے بغیر پاکستان کی قسمت بدلنا ایک خواب ہی رہے گا۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں لیکن ان کے پاس ایسی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں، ان کے مطابق لوگ اندازے لگاتے رہتے ہیں اور اس ضمن میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پراگرام میں تاخیر اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سال 2024 میں ڈالر کا ریٹ کیا رہے گا؟
ظفر پراچہ کے مطابق ہم لوگ کچھ ڈالرز کے لیے آئی ایم ایف کی منت سماجت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، نگراں حکومت کے دور میں پالیسی واضح رہی ہے اور چیف آف آرمی کی کاوشوں سے ڈالر کو ایک حد پر روک رکھا گیا لیکن موجودہ حکومت شاید وہ تسلسل برقرار نہیں رکھ پائی۔
’سادہ الفاظ میں اگر کہا جائے تو آئی ایم ایف کے ہم اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ انہیں بھی اندازہ ہے کہ پاکستان ہر صورت قرض لینے کے لیے کوشش کرے گا، ہمیں اپنا گریبان بھی دیکھنا ہو گا، ہمارے معاملات درست نہیں ہیں، چور بازرای کو نہیں روک سکے ہم، نگراں دور حکومت میں اسمگلنگ پر سختی تھی لیکن پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق یہ بہت آسان سی بات ہے کہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ چین کے ساتھ قرضوں کو ری شیڈول کریں کیوںکہ ہمارا جھکاؤ کبھی چین تو کبھی امریکہ کی جانب ہوجاتا ہے، اور آئی ایم ایف ہمارے چین کے ساتھ تعلقات کو شاید اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔
مزید پڑھیں:بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈالر منگوانے کے لیے ایمنسٹی اسکیم؟
معاشی تجزیہ کار عدنان پراچہ سمجھتے ہیں کہ ڈالر کی قمیت میں 2 سے 3 روپے تک اضافہ ممکن ہوسکتا ہے کیونکہ اس وقت روپے کی قیمت مصنوعی ہے اور اسے اپنی اصل جگہ پر لانے کے لیے کچھ اقدامات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ’اس وقت ملک میں ڈالر تو بہت ہے لیکن وہ قانونی نہیں ہے اسے قانونی کرنے کے لیے حکومت کو کچھ اقدامات کرنا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف ملک میں موجود بلیک ڈالر کو وائیٹ کرانے کی اجازت دے گا۔‘
عدنان پراچہ کے مطابق نومبر کے آخر تک ممکن ہے کہ ڈالر 290 روپے تک رک جائے، لیکن اس کا دارومدار آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر ہے، ان کا خیال ہے کہ اگلے مہینے تک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کی صورت میں پاکستانی معیشت کو کچھ سہارا مل جائے گا۔