رواں ماہ کے اوائل میں ایگزیکٹیو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل (ایکنک) نے 2.975 کلومیٹر طویل رٹھوعہ ہریام پل کی لاگت بڑھا کر 10 ارب روپے کردی۔
پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے رٹھوعہ ہریام پل کا منصوبہ اگست 2006 میں منظور کیا تھا۔ اس میں پل کی مضبوطی کو یقینی بنانے والا ایک سیگمنٹ کیبل اسٹینڈ بھی تھا جس پر لگ بھگ 1.4 ارب روپے لاگت آنی تھی۔
آزاد کشمیر کی سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کی وجہ سے اس منصوبے کی تکمیل میں نہ صرٖ ف تاخیر ہوئی بلکہ پاکستان کے ٹیکس دہندگان پر 3.52 ارب کا اضافی بوجھ بھی پڑا۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور چین کا آزاد کشمیر میں جاری پن بجلی منصوبے جلد مکمل کرنے کا عزم
سرکاری دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کو مئی 2014 میں مکمل کیا جانا تھا جس میں پہلے سنہ 2018 تک توسیع کی گئی اور پھر وہ تاریخ بڑھ کر جون 2021 تک چلی گئی لیکن یہ پل ابھی تک نامکمل ہے۔
دستاویزات کے مطابق ابتدا میں اس پل کی تعمیر کے لیے وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کو تقریباً 3.5 ارب روپے کا پی سی ون 03 جون 2009 کو جمع کرایا گیا۔
سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی ( سی ڈی ڈبیلیو پی) کے فیصلے کی روشنی میں کیبل اسٹینڈ سیگمنٹ کے متبادل صورت تلاش کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی گئی۔
مزید پڑھیے: آزاد کشمیر: رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کا نصف دھرا کا دھرا رہ گیا
دستاویزات کے مطابق اس کمیٹی نے روایتی آر سی سی پری اسٹریسڈ پل کو حتمی شکل دی۔ ان میں کہا گیا ہے کہ نیسپاک نے 2.9 کلومیٹر آر سی سی پل کا ڈیزائن تیار کیا اور ای سی این ای سی نے مئی 2011 میں 4.23 ارب روپے کا پی سی ون منظور کیا۔ سرکاری دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ 15 جون 2011 میں ٹینڈر کا عمل شروع ہوا اور سب سے کم نرخ پیش کرنے والی کمپنی بی آئی ایکس آئی این اسکائی ویز جوائنٹ وینچر کو اگست 2011 میں ٹھیکہ دیا گیا۔
کنسلٹنسی کی خدمات نیسپاک کو دی گئی تھیں۔ کنٹریکٹر نے دستاویزات میں کہا کہ نیسپاک کی طرف سے فراہم کردہ ڈیزائن کے مطابق پل پر کام شروع کیا لیکن 2013-2012 کے دستیاب وقت کے دوران کنٹریکٹر 3 گہرے چینل کے علاقے میں پانی کی وجہ سے آر سی سی کا کام مکمل نہ کرسکا۔
ان کے مطابق نیسپاک نے 2013-2012 میں آر سی سی پل کے کام کے دوران جغرافیائی تکنیکی مطالعہ دوبارہ شروع کیا اور چینل کے علاقے میں بڑے پیمانے پر اضافی آر سی سی سب اسٹرکچر ڈیزائن میں شامل کیا۔
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے لیے آزاد کشمیر کو کتنے گنا اضافی بجٹ فراہم کرے گی؟
دستاویزات میں یہ بھی ذکر ہے کہ دسمبر 2014 میں پاکستان کی وزارتِ امور کشمیر و گلگت بلتستان کو 2.39 بلین روپے کا نظر ثانی شدہ پی سی ون پیش کیا۔ پروجیکٹ کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے 9 مارچ 2015 کو یہ حکم دیا کہ اس کی توثیق تیسری فریق سے کرائی جائے۔اس کے لیے یہ بھی کہا گیا کہ تیسرے فریق کی توثیق کے کنسلٹنٹ ایم/ایس اے اے ایسوسی ایٹس کراچی کو مقرر کیا گیا جس نے 160 میٹر اسپین والا اسٹیل پل تجویز کیا۔
دستاویزات کے مطابق یہ 160 میٹر اسپین والا اسٹیل پل چین کے سی بی بی آر جی نے ڈیزائن کیا اور اس کے بعد اے اے ایسوسی ایٹس کراچی نے اس ڈیزائن کی توثیق کی۔ ڈیزائنر اور توثیق کرنے والے کنسلٹنٹس کی فیس معاہدہ کنٹریکٹر نے برداشت کی۔
اس کے مطابق 6.48 ارب روپے کا نظر ثانی شدہ پی سی ون میں پاکستان کی وزارتِ امور کشمیر و گلگت بلتستان کو پیش کیا گیا۔
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ وزارت نے اکتوبر 2017 میں 160 میٹر اسٹیل پل کے ساتھ 48.6 بلین روپے کی نظر ثانی شدہ پی سی ون کی منظوری دی۔ 160 میٹر اسٹیل پل پر لاگت کا تخمینہ 1.04 بلین روپے لگایا گیا تھا۔
دستاویزات میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اس منصوبے میں تاخیر کی اہم وجہ یہ ہے کہ اکتوبر 2017 میں اس کی لاگت بڑھا کر 6.48 ارب روپے تو کردی گئی لیکن اس منصوبے پر آزاد کشمیر کے پروجیکٹ منیجمنٹ یونٹ ( پی ایم یو) کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کنٹریکٹر کو 2 سال بعد اکتوبر 2019 میں ویری ایشن آرڈر ( وی او) جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیے: سی پیک میں نئے منصوبے شامل نہ کرنے کی خبریں بے بنیاد قرار
وی او تاخیر سے جاری کرنے کی وجہ سے کنٹریکٹر نے وی او میں دیے گئے نرخ قبول کرنے سے انکار کیا۔
آزاد کشمیر کی افسروں کے رویے اور عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سال کی تاخیر کے بعد 15 اکتوبر 2020 کو آزاد کشمیر کے چیف انجینیئر شاہرات نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کنٹریکٹر کے ساتھ میٹنگ کی۔
اس تاخیر کے بعد بھی کنٹریکٹر کو 3 سال پہلے کے نرخ پر کام کرنے کے لیے اصرار کیا گیا جس کے نتیجے میں چیف انجینیئر اور کنٹریکٹر کے درمیان ملاقات ناکام ہوگئی۔
دسمبر 30 2020 کو کنٹریکٹر نے ثالثی کی درخواست دی۔ 02 دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ فروری 2021 کو آزاد کشمیر کی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ کنٹریکٹر اور حکام کے درمیان رٹھوعہ ہریام پل میں 160 میٹر طویل اسٹیل برج کی تعمیر کا معاملہ حل کریں اور اس منصوبے میں تاخیر کے بارے میں رپورٹ پیش کریں۔
آزاد کشمیر کی حکومت نے 3 سال سے زیادہ عرصے کے بعد پروجیکٹ ڈائریکٹر کو ہٹا دیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بڑے منصوبے میں تاخیر کے باعث ناکام ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا لیکن آزاد کشمیر کی حکومت نے صرف پروجیکٹ ڈائریکٹر کو ہٹایا۔
مزید پڑھیے: کیا نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ فالٹ لائن کے قریب تعمیر کیا گیا ہے؟
سرکاری دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے وزرارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے اس منصوبے کی تکمیل میں 30 جون 2021 تک اس شرط پر توسیع کی کہ آزاد کشمیر کی حکومت منصوبے میں تاخیر کی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے گی ۔
وزرارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے آزاد کشمیر کی حکومت کو تحریری طور پر کہا کہ وہ ایک ہفتے کی اندر تحقیقات کرکے منصوبے میں تاخیر کی ذمہ داری کا تعین کرے۔
آزاد کشمیر کی حکومت نے 26 اپریل 2021 کو فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی اور اسلام آباد میں حکام کو رپورٹ پیش کی۔
آزاد کشمیر کی حکومت کی طرف سے مشاورتی کمیٹی نے بھی اس بارے میں حکام کو رپورٹ پیش کی۔ یہ تحقیقات نہ منظر عام پر آئیں اور نہ ہی آزاد کشمیر کی حکومت نے کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی۔
یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب پل پر کام کرنے والی فرم نے 04 مئی 2021 کو اسٹیل برج کے لیے 4.16 ارب روپے کی نئی تجویز دی تھی جبکہ 2017 میں اس پر 1.04 ارب روپے لاگت کا تخمنہ لگایا گیا تھا۔
کنسلٹنٹ نیسپاک نے اس پر اعتراضات اٹھائے لیکن کنٹریکٹر نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا جب تک ان کے مطالبات منظور نہیں کیے جاتے۔
کنٹریکٹر نے ایک نوٹس کے ذریعے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ ثالثی کی درخواست دیں گے اور اس نے مظفرآباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک رٹ بھی کی۔
اب پاکستان کے ای سی این ای سی نے اس منصوبے کی لاگت کو 10 ارب روپے تک بڑھا دیا ہے۔ اس کا مطلب 3.52 ارب روپے کا اضافہ اور یہ 160 میٹر اسٹیل برج پر خرچ ہوگا۔
مزید پڑھیں: نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی بندش، قومی خزانے کو سالانہ کتنے ارب روپے نقصان ہو رہا ہے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب آزاد کشمیر سیاسی و انتظامی اشرافیہ کی وجہ سے پل کی اس حصے کی تعمیر میں تاخیر ہوئی تو اس وقت کنٹریکٹر نے 2021 میں اس پل کے لیے 1.04 بلین کے بجائے کل 4.16 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا جس کا مطلب 3 ارب اضافی مانگے گئے تھے۔ اب یہی پل 4.5 ارب روپے میں مکمل کیا جائے گا جس کا مطلب کوئی 50 کروڑ روپے اضافی خرچ ہوں گے۔
اس طرح سنہ 2011 میں شروع ہونے والا منصوبہ رٹھوعہ ہریام پل 4 ارب 23 کروڑ 20 لاکھ 8 ہزار 550 روپے کے بجائے 10 ارب میں مکمل ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیم میں پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کی تکمیل سنہ 2024 میں ممکن نہیں۔ منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت میں اضافے کا بوجھ عوام پر پڑے گا۔