جب میں نے محترمہ اسٹیبلشمنٹ کا انٹرویو کرنے کی ٹھانی تو مسئلہ یہ آن کھڑا ہوا کہ ان سے رابطہ کیسے ہو؟ بلکہ یوں کہہ لیں کہ کس منہ سے رابطہ کروں۔
معاملہ یہ ہے کہ میں نے ان پر جب بھی بڑی تمیز تہذیب اور دلائل کے ساتھ تنقید کی تو ان کے چاہنے والوں نے وہ سنائیں کہ اللہ کی پناہ، بات غدار اور ملک دشمن کی اسناد سے شروع ہوکر ‘جاجا پاکستان سے نکل جا’ کے حکمیہ مشورے پر ختم ہوئی، یہاں تک کہ خود بھی اپنے غدار اور ملک دشمن ہونے کا یقین ہوگیا۔ ایک تو اپنے ‘کرتوتوں’ پر شرمندگی اور ان کے ناراض ہونے کا خوف، پھر اس سے ناآشنا کہ ان سے رابطہ کیسے ہوتا ہے؟ اس پر یہ مشکل کہ رابطے کا کوئی ذریعہ کوئی وسیلہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے تک ایسے اصحاب کی کمی نہیں تھی جو ایک پَل میں پُل بن کر مجھے وہاں پہنچا سکتے تھے، مگر ایسی کایا کلپ ہوئی کہ سب کچھ بدل گیا۔ ان میں سے جو صاحب کہتے تھے ‘فوج ہی ہماری جمہوریت، معیشت اور استحکام ہے’ وہ خلف رشید سے ناخلف ہوکر اب ‘بروٹس تم بھی!’ کی تفسیر ہوگئے ہیں، جو ہمیں جناب باجوہ سے متعلق بشارت کا مقدس خواب سناکر گویا سپاہ سالار پر ایمان مکمل لانے کا تقاضا کرتے تھے اب اس ‘مقبول’ خواب سے یکسر مختلف تعبیر لیے جاگ چکے ہیں۔ جرنیلی باورچی خانوں تک رسائی رکھنے والے صاحب جو پرویز کیانی کے بس ایک سالن کھانے کی خبر لائے تھے اب جرنیلوں کی دال میں کالے کی خبریں سناتے ہیں گویا جو بھی اُن تک پیغام رسانی کا امکان تھا وہ ان کے لیے ضرر رسانی کا سامان بن چکا تھا۔ سوچتا رہا کہ جاﺅں تو کہاں جاﺅں کہ اسٹیبلیشمنٹ سے رابطہ کر پاﺅں۔ خیر کسی نہ کسی طرح میری صدا کو شرف باریابی عطا ہوا۔
گزارش کی، ‘ملنا چاہتا ہوں۔’
جواب آیا، ‘تم سے خیالات نہیں ملتے، دل نہیں ملتا، تو کیسے ملا جائے؟’
کہا، ‘میل ملاپ نہیں، آپ کا انٹرویو کرنا ہے’
فرمایا، ‘قواعد وضوابط کے مطابق میں انٹرویو نہ دینے کی پابند ہوں’۔
عرض کی، ‘لیکن اب تو آپ نے ریٹائرمنٹ لے لی ہے’۔
طنزیہ ہنسی میں گُھلی آواز آئی، ‘اچھے صحافی ہو اسٹیبلیشمنٹ بھی کبھی ریٹائر ہوتی ہے!’
تُرنت جواب دیا، ‘کبھی نہیں، میں تو سیاست سے ریٹائرمنٹ کی بات کر رہا ہوں’۔ ایک ہنکارہ بھر کر کہا گیا، ‘خوشی ہوئی کہ تمہیں اس بات پر یقین ہے، اس لیے اجازت ہے، آجاﺅ کرلو انٹرویو’۔
‘مگر کہاں آﺅں؟ گیٹ نمبر 4 پرآجاﺅں؟’
‘نہیں، اس گیٹ سے آنے والوں پر اب اعتبار نہیں رہا۔’
‘چلیے یوں کریں کہ کسی کو بھیج دیں لانے کے لیے۔’
‘دیکھو ہم ویگو والے بھیجیں گے، ایک تو وہ کسی اور طرح لانے کے عادی ہیں پھر یہاں لانے کے بجائے غلطی سے شمالی علاقہ جات بھی لے جاسکتے ہیں، انٹرویو لینے کا دینا پڑجائے گا اس لیے خود ہی آجاﺅ۔’
‘جی جی بہتر۔ خود ہی آجاﺅں گا۔ مگر کہاں؟’
‘ویسے تو جہاں جاﺅ گے میں ہی میں ہوں۔ لاہور کے لال قلعے سے راولپنڈی تک۔ لیکن اتنی دُور کہاں آﺅ گے یوں کرو کہ اپنے شہر ہی کی بہترین لوکیشن کی اراضیوں میں سے کہیں پر بھی چلے جاﺅ، مجھ سے ملاقات ہوجائے گی۔’
‘اب میں ایک ویسی ہی خالی اراضی پر موجود ان کا منتظر تھا۔’
یکایک بھاری بوٹوں کی دھم دھم سے زمین لرز اٹھی اور ایک آواز آئی: ‘چلو شروع کرو انٹرویو۔’
دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے دیکھا کوئی نہیں تھا۔
پوچھا، ‘کہاں ہیں آپ؟’
‘میں ہر ایرے غیرے کو نظر نہیں آتی بس محسوس ہوتی ہوں۔ دکھائی میں بس انہیں دیتی ہوں جو میری قدر کرتے ہیں۔ وہ مجھے میرے گھر میں بس ایک سالن کھاتے بھی دیکھ لیتے ہیں اور اسلام آباد کلب میں ‘اپنے ہاتھ سے کھانا اٹھا کر پلیٹ میں ڈالتے’ بھی۔ تم بس میری آواز پر گزارہ کرو۔’
جیسی آپ کی مرضی۔ گزارے کا ذکر آہی گیا ہے تو یہ بتائیے کیسی گزر رہی ہے؟
کچھ مت پوچھو غالب کا وہ شعر سنا ہے:
کیا قیامت کسی پہ گزری ہے
آخری راہ نما بناتے ہوئے
محترمہ، یہ شعر غالب نہیں عمار اقبال کا ہے۔ اور شعر یوں ہے:
کیا قیامت کسی پہ گزرے گی
آخری آدمی بناتے ہوئے
یہ شاعری ہے سیاست نہیں کہ کسی اور کے شعر میں من مانی انجنیئرنگ کرلی جائے۔
‘دیکھ بھائی! یہاں میں ہی غالب ہوں اور مستقبل کا ذکر نہیں یہاں تو بنا چکے ہیں اور گزر چکی ہے۔ بھیا یہی تو دکھ ہے کہ آدمی نہ بنا پائے۔’
‘جی بالکل غالب ہیں اور ساری زمینیں آپ کی۔’
‘کیا مطلب؟’
‘ارے میں شعر کی زمین کی بات کر رہا تھا۔’
‘ایک منٹ رکو۔’
حکم ملا پھر آواز آئی، ‘ہیلو! معلوم کرو کون ہے یہ شیر اور اس کی زمینیں کہاں ہیں۔ لوکیشن پتا کرو۔’
لہجہ بہت دھیما تھا، لیکن سناٹے کی وجہ سے سُن لیا۔
‘معذرت ایک ضروری کال کرنا پڑی۔ جاری رکھو۔’
آواز دوبارہ مجھ سے مخاطب تھی۔
‘لگتا ہے آپ کو شاعری سے بہت دلچسپی ہے۔ کون سی اصناف پسند ہیں؟’
‘قصیدہ، ترانے اور پابند نظم۔ تمہیں پتا ہی ہے کہ خود نظم کی کتنی پابند ہوں۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی کا نظم بھی پسند تھا، مگر اب وہ ہمارے لیے آزاد نظم ہوچکی ہے۔ ایم کیوایم کا نظم بھی بھاتا تھا، لیکن پھر ضبط نہ رہا۔’
‘فکشن سے بھی شغف ہے۔ پسندیدہ افسانہ نگار کون ہیں؟’
‘فکشن کے بغیر تو میرا گزارا ہی نہیں۔ ایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے افسانوں کی گرویدہ ہوں۔’
‘مگر انہوں نے افسانے کب لکھے؟’
‘ہاہاہا۔ یہ سیاستدانوں کے خلاف مقدمات اور فیصلے کیا تمہارے سعادت حسن منٹو نے لکھے تھے؟ یہ سعادت انہی لوگوں کے حصے میں آئی۔ اس سے اچھا فکشن دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھا گیا ہو تو دکھا دو؟’
میں لاجواب ہوگیا۔
‘یہ بات تو ہے، سیاستدانوں کے بارے میں جو شاندار کہانیاں آپ نے تخلیق کی ہیں ان پر آپ کو ادبی اعزازات ملنے چاہئیں۔’
‘دراصل ادبی اعزاز دینے والے یہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ میں نے سیاستدانوں کے بارے میں زیادہ اچھی کہانیاں تخلیق کی ہیں یا اپنے بارے میں۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، ادبی اعزاز ملے نہ ملے بس یہ بے ادبی رک جائے جو ہو رہی ہے۔’
‘خود آپ کو اپنی کون سی تخلیقات زیادہ پسند ہیں؟’
‘سیاسی جماعتوں کے دھڑے کیونکہ یہاں کہانی پرفارمنگ آرٹ میں ڈھل جاتی ہے؟’
‘پاکستان کے 75 سال کے دوران کوئی سیاستدان آپ کو پسند آیا؟’
‘ہاں کیوں نہیں، قائدِاعظم’
‘حیرت ہے، وہ آپ کو کیوں پسند ہیں؟’
‘کیونکہ ایک تو وہ گورنر جنرل تھے، دوسرے جلدی چلے گئے۔’
‘لیکن وہ تو جمہوریت کے دلدادہ تھے اور انہوں نے آپ کو سیاست سے دُور رہنے کا حکم دیا تھا۔’
’تو میں بھی جمہوریت کی بے حد عزت کرتی ہوں اتنی کہ اس کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے اسے چلنے نہیں دیتی۔ قائداعظم کے حکم پر عمل ہی تو ہے کہ میں نے جب جب حکومت سنبھالی سیاست کو خود سے دور کر دیا۔ کبھی جیل بھیجا تو کبھی برطانیہ اور سعودی عرب کا راستہ دکھایا۔ پھر سیاست سے دور رہنے کا حکم تھا دور سے سیاست کرنے کا نہیں۔ تو میں نے کون سی نافرمانی کی بولو بولو؟‘
’کیا بولوں، صحافی ہوں میری رائے نیوٹرل ہوتی ہے‘۔
’اچھا ہمیشہ سے نیوٹرل ہو؟‘
’جی، اس وقت بھی نیوٹرل تھا جب نیوٹرل صحافی جانور تو نہیں سمجھے جاتے تھے لیکن تبدیلی اور یوٹرن کا ساتھ نہ دیں تو ان کی جان پر بن آتی تھی‘۔
’کس زمانے کی بات کرتے ہو دل جلانے کی بات کرتے ہو‘۔
ایک سرد اہ بھر کر کہا گیا۔
’خیر، آپ نے کیوں پوچھا؟‘
’بس یہ جاننا تھا کہ بڑا مشکل کام ہے کیسے کر لیتے ہو‘۔
’ایکسٹینشن کی ٹینشن نہیں ہوتی اس لیے خود ہی ہوجاتا ہے‘۔
’ہونہہہہ ۔۔ بڑے تیکھے جملے بولتے ہو‘۔
’بس ہمت بڑھ گئی ہے۔ دراصل آپ کی قوت کے قصے تو بہت سنے تھے پہلی بار قوت برداشت کا تجربہ ہو رہا ہے، اس لیے میرے جیسوں کے حوصلے بھی بڑھ گئے ہیں‘۔
’ٹھیک ہے، مگر خیال رکھنا قوت برداشت کی یہ سہولت محدود مدت اور محدود ملت کے لیے ہے‘۔
’اور اس ملت کی حدود کیا ہیں؟‘
’یہ وہ ملت ہے جسے میری جناب میں کبھی ذرا سی بھی گستاخی پسند نہ تھی اور ایسی کسی بھی گستاخی پر یہ ہر حد پار کر جاتی تھی۔ وفاداری کا یہی بیلنس اس کے کام آرہا ہے‘۔
’واہ بھئی وفا کا یہ کاروبار تو بڑا سود مند ہے۔ ویسے آپ کے ساتھ تو جو بھی کاروبار کیا جائے اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے‘۔
’جلتے ہو میرے کاروبار سے؟‘
’خدا نہ کرے میں تو دفاع کرنے والی کمپنیوں سے تجارت کرنے والی کمپنیوں تک آپ کی ہر کمپنی کا خیرخواہ ہوں۔ میں تو آپ کی کاروباری وسعت سے اتنا متاثر ہوں کہ کوئی سائنس کا طالب علم پوچھے کہ کائنات کیسے پھیل رہی ہے تو جواب دیتا ہوں ڈی ایچ اے کی طرح۔ وہ جھٹ سمجھ جاتا ہے، کیوں کہ سامنے کی مثال ہے نا‘۔
’اب تم عبرت کی مثال بننے والی باتیں کر رہے ہو‘۔
’میں نے تو بس یوں ہی ایک مثال دی تھی جیسے ایک صاحب نے فوج کو بہ طور مثال خاندان کہا تھا‘۔
’یہ کب کہا تھا؟‘
’جب خاندان میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب، میجرعادل راجا اور حیدر مہدی وغیرہ نے جنم نہیں لیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب جنرل مشرف کو آئین شکنی پر جسٹس وقار سیٹھ کی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی‘۔
’ہاں یاد آیاجنرل پرویز مشرف کے لیے فاتحہ پڑھ لو جن کا وقت پورا ہوگیا‘۔
’اور جسٹس وقارسیٹھ اور ان کی عدالت کے لیے بھی فاتحہ جن کا وقت پورا کر دیا گیا‘۔
ہم دونوں نے فاتحہ پڑھی۔ میں نے منہ پر ہاتھ پھیرے تو بوٹوں کی دھمک دور جاتی سنائی دے رہی تھی۔
میں بھی چلا آیا۔