اگر آپ بھارتی فلم “دی گوٹ لائف” کو دیکھنے کا ارادہ کررہے ہیں تو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ یہ صرف ایک فلم ہے جس کا حقیقت سے تعلق بس اتنا ہی ہے جتنا اس سے پہلے کی بالی ووڈ مویز کا اور اس میں بھی ہر موڑ پر حالات اور واقعات کو توڑ مروڑ کر اپنے مطابق ڈھالا گیا ہے۔ گو کہ دعویٰ یہی کیا گیا ہے کہ یہ فلم بھارتی ریاست کیرالا سے تعلق رکھنے والے نجیب محمد کی سچی داستان ہے جسے ملیالم زبان کے مصنف بنیا مین کے ناول : آدو جیوتم میں پیش کیا گیا تھا اور اسی ناول سے متاثر ہو کر فلم بنائی گئی لیکن درحقیقت یہ فلم بھارتی پروپیگنڈا مہم کا ہی حصہ ہے۔
سچائی یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مودی سرکار کی نگرانی میں جو فلمیں تخلیق کی جارہی تھیں ان کا دائرہ اب خلیجی ریاستوں تک پھیلایا جارہا ہے۔ انتہا پسند مودی سرکار نے حالیہ الیکشن میں کامیابی کے لیے پاکستان اور مسلم مخالف موویز کا انبار لگادیا تھا اب اس میں ایک اور نئی چال یہ چلی گئی ہے کہ توپوں کا رخ دھیرے دھیرے خلیجی ریاستوں کی جانب کیا جارہا ہے۔ یہ بھارتی پروپگنڈا ہی تھا گزشتہ سال شیام بینگل جیسے سنجیدہ ہدایت کار نے مودی سرکار کی خوشنودگی کے لیے “مجیب دی میکنگ آف آ نیشن” بنا کر سقوط ڈھاکہ کا غلط رخ پیش کیا۔ بہرحال ان کی یہ چال زیادہ کامیاب نہ ہوئی اور چند ہی ماہ بعد بھارتی آشیرباد سے بھڑکیں مارنے والی حسینہ واجد عوامی انقلاب کے سامنے نہ ٹھہرسکیں اور فرار ہو کر بھارت جا پہنچیں۔
بھارتی فلم ” دی گوٹ لائف ” کو اس تناظر میں پروپیگنڈا مواد ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اسے دیکھتے وقت آپ کو خودبخود احساس ہونے لگے گا کہ اب اگلے منظر میں کیا ہوگا۔ یعنی فلم فارمولا مسالے کے تحت ہی بنائی گئی جبکہ سچے واقعے کے گرد گھومنے والی فلموں میں کئی غیر متوقع ڈرامائی موڑ آتے ہیں۔ رائٹر نے کمرشل ویلیو کو سمجھتے ہوئے اپنے اعتبار سے اسکرین پلے بنائے۔
فلم کے مرکزی کردار نجیب کے فرار کی کہانی کو ہی لے لیں، تاثر یہی دیا گیا کہ فرار کے بعد بھی اس کی زندگی کرب اور دکھوں سے بھری تھی۔ اس نے ریگستان میں خوف ناک ریت کے طوفان کا بھی سامنا کیا لیکن کسی سپر ہیرو کی طرح وہ ان خوف ناک قدرتی آفات سے بچ نکلا۔ حقیقت یہ ہے کہ ریت کا طوفان اور وہ بھی ایسا جو فلم میں تباہ کن دکھایا ہے ہر شے کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ پھر فلم کے ایک منظر میں سپر ہیرو نجیب صاحب کو سینکڑوں ریگستانی سانپ بھی مل جاتے ہیں۔ یہی نہیں وہ تن تنہا خونخوار گدھوں سے بھی مقابلہ کرتا ہوا نظر آیا۔ پھر کئی دنوں سے دور تک پھیلے ہوئے ریت کے مقام میں بغیر کچھ کھائے پیے وہ زندہ بھی رہتا ہے۔ بہتر تھا فلم کا نام ” سپر ہیرو نجیب ” ہی رکھ دیتے تھے۔ کیونکہ پوری فلم میں وہ ناممکن کو ممکن جو کرتے جارہے تھے۔
فلم میں نجیب کے کفیل کو اس قدر ظالم اور سخت گیر دکھایا گیا کہ وہ ہر مرحلے پر اس کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ فلم میں مرکزی کردار ایک لاقانونیت اور سفاکی کے ماحول میں پھنسے ہوئے دکھایا گیا ہے جہاں تاثر یہی دیا گیا کہ کفیل جس علاقے میں وہ جیسے قانون نافذ کرنے والوں کے لیے ” نو گو ایریا” ہے۔ جو یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ کیا کچھ ظلم و ستم ہورہا ہے۔ یعنی ہدایتکار نے انتہائی باریکی سے نہیں بلکہ واضح طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ غیرملکی باشندے کس طرح ظلم کی چکی میں پستے رہے ہیں۔ اب اگر مان لیا جائے کہ اس قدر ظلم و ستم ہورہا ہے توایک بھارتی سروے کو کس جگہ فٹ کریں گے جس میں بتایا گیا تھا کہ جہاں سے نجیب کا تعلق تھا یعنی کیرالا سے تو یہاں کی 90 فی صد آبادی خلیجی ریاستوں میں ملازمت کرتی ہے۔ اس تناظر میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک علاقے کےباشندے اس قدر جبر سہتے ہو اور فلم کے مطابق وہ اپنے گھروں کو بھی لوٹ نہ پاتے ہیں تو اس کے باوجود ان کے علاقے کے لوگ پھر کیوں خلیجی ریاستوں کا رخ کرتے ہیں ؟
یہاں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت اب سعودی عرب میں غیر معمولی انقلابی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جس طرح سعودی عرب میں جدید ترقیات کا دور شروع ہوا ہے اس نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ پھر اسی طرح سعودی عرب اگلے برسوں میں کئی بین الاقوامی ایونٹس کی میزبانی کرنے جارہا ہے جبکہ 2034 میں عالمی فٹ بال کپ کا ایونٹ بھی سعودی سرزمین پر ہوگا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کا بین الاقوامی تصور بہتر کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں بھارت میں ” دی گوٹ لائف ” جیسی فلموں کے ذریعے گرگٹ کی طرح پھونکیں مارنے والا کام کیا جارہا ہے۔ انتہائی چالاکی کے ساتھ فلم میں کہیں بھی سعودی عرب کا نام یا کوئی لینڈ مارک مقام تو نہیں دکھایا گیا لیکن ہر منظر میں فلم بین جان جائیں گے کہ کہاں کی داستان پیش کی جارہی ہے۔ یہی نہیں جان بوجھ کر ایک مسلمان کی کہانی کا انتخاب کیا گیا جس میں اپنی جانب سے مرچ مسالا لگا کر پیش کیا گیا۔ یہاں ایک اور سروے کا ذکر بھی کر دیتا ہوں کہ دنیا بھر میں موجود بھارتی نژاد شہریوں میں سے 66 فی صد خلیجی ریاستوں میں ہیں۔ اب یہاں پھر سے وہی سوال جنم لیتا ہے کہ اگر خلیجی ریاستوں میں اس قدر ظلم ڈھایا جارہا ہے تو پھربھارتی یہاں کا ہی کیوں رخ کرتے ہیں؟