جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا ہمیشہ سے پارلیمان میں کلیدی کردار رہا ہے۔ ایک حکومت کو گرا کر نئی حکومت لانی ہو، کسی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلانی ہو یا آئینی ترمیم کرنی ہو، مولانا فضل الرحمان ہر موقعے پر سب سے اہم ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مجوزہ آئینی ترامیم پر مشاورت، محسن نقوی کی مولانا فضل الرحمان سے ایک اور ’اہم ملاقات‘
یہی وجہ ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے گزشتہ ایک ماہ میں صدر آصف زرداری و سابق صدر عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر، وفاقی وزرا اور دیگر اپوزیشن و حکومتی وفود نے متعدد بار جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو منانے کے لیے ملاقاتیں کیں تاہم اب بھی واضح نہیں ہو رہا کہ مولانا فضل الرحمان کس کا ساتھ دیں گے۔
ایک طرف حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیم میں حمایت کے لیے مان گئے اور ہمارے نمبرز پورے ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہوئے اس ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ نے مشاورتی ٹیم کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو منانے میں ناکام ہوئے، دوسری جانب بدھ کو پہلی مرتبہ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر کی رہائشگاہ گئے۔
مزید پڑھیے: عمران خان سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان کا دلچسپ جواب
تجزیہ کاروں کے مطابق اب ایسا لگ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو اپوزیشن نے قائل کر لیا ہے تاہم حتمی طور پر اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کی رائے میں مولانا فضل الرحمان حکومت کا ساتھ دیں گے یا اپوزیشن کا؟
سینیئر صحافی سلیم صافی کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے حکومتی وفد اور پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقاتوں کے دوران کہا ہے کہ یہ آئین ہے اور اس میں اتنی آسانی سے ترامیم نہیں کی جا سکتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے آئینی ترمیم کے مسودے پر شدید تحفظات ہیں، سویلینز کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی تجویز پر مولانا کو سب سے زیادہ تحفظات تھے اس لیے مولانا فضل الرحمان کو منانا اتنا آسان نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: آئینی ترامیم کے لیے حکومتی تجاویز کسی صورت قابل قبول نہیں، مولانا فضل الرحمان کا دوٹوک جواب
سلیم صافی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی ملاقات بھی ہوئی ہے، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے دروازے بند نہیں کیے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ پہلے جامع حکمت عملی اور پارلیمانی کمیٹی کے سالمے تجاویز رکھی جائیں ان پر بحث ہو اور پھر ایک مسودہ تیار کیا جائے، اس مرتبہ تو مولانا فضل الرحمان مسودہ مانگتے ہی رہے تاہم حکومت ان کو مسودہ نہ دے سکی۔
انہوں نے کہا کہ اگر آئینی ترمیم کا معاملہ کمیٹی میں آئے گا، پارلیمنٹ میں اس پر بات ہو گی اس وقت مولانا فضل الرحمان اپنی تجاویز کے ساتھ اس کی حمایت کر سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ بغیر مسودے کو پڑھے مولانا فضل الرحمان اس آئینی ترمیم کی حمایت کر دیں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ آئینی ترمیم کے مسودے پر کسی پارلیما نی پارٹی سے مشاورت نہیں کی گئی نہ ہی کسی پارلیمانی پارٹی کی تجاویز کو شامل کیا گیا، اگر حکومت ان کی تجاویز کو آئینی ترمیم میں شامل کرے اور جن تجاویز پر ان کو اختلاف ہے ان تجاویز کو مسودے سے نکال دے تو اس صورت میں مولانا فضل الرحمن حکومت کی جانب سے پیش کی گئی آئینی ترمیم کی حمایت کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے: کیا عمران خان مولانا فضل الرحمان سے ناخوش ہیں؟ وکیل نعیم پنجوتھا نے آنکھوں دیکھا حال بتادیا
سینیئر تجزیہ کار ارشاد عارف نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان پاکستان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کی طرح کسی کو خوش کرنے کے لیے فوری طور پر آئینی ترمیم کے لیے تیار نہیں ہو سکتے ہاں البتہ اگر پارلیمان کے وقار یا آئین کی بالادستی کے لیے کوئی تجاویز پیش کی جائیں تو ایسی صورت میں مولانا فضل الرحمن آئین میں ترمیم کی حمایت کر سکتے ہیں۔
ارشاد عارف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان سمجھتے ہیں پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے لیکن جو مسودہ سامنے آیا ہے اس سے جمہوریت کو مزید کمزور کیا جا رہا تھا اس لیے مولانا فضل الرحمان نے فوری طور پر اس مسودے کو مسترد کیا ہے، دوسری جانب ججز کے حوالے سے جو ترامیم ہیں اگر وہ بار کونسلز کی مشاورت سے طے ہوں اور عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے لیے ہوں تو ایسی تجاویز پر بھی مولانا فضل الرحمان رضا مند ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ ماہ اگست کے آخری ہفتے میں صدر مملکت آصف علی زرداری وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے ان کی رہائشگاہ گئے، اس ملاقات کی کچھ زیادہ تفصیلات تو میڈیا پر نہیں آسکی۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی بیٹھک: آئینی ترمیم کے حوالے سے پیشرفت کا جائزہ
وزیراعظم شہباز شریف بھی 30 اگست کو مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر پہنچ گئے، اس ملاقات کو غیر معمولی سمجھا جا رہا تھا اور اس وقت تک واضح ہو گیا تھا کہ حکومت ممکن طور پر ججز اور عدلیہ کے حوالے سے کوئی آئینی ترمیم سامنے لا رہی ہے اور چونکہ آئینی ترمیم کے لیے 2 تہائی اکثریت کی ضرورت ہے تو اب وزیراعظم خود جے یو آئی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کے پاس گئے ہیں۔
اس ملاقات میں وزیراعظم کے ہمراہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عطاء تارڑ بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کے بعد کہا گیا کہ اب حکومت مولانا فضل الرحمان کو آئینی ترمیم کے لیے منانے میں کامیاب ہو گئی ہے اور جے یو آئی اب حکومت کی حمایت کرے گی۔ اسی دوران مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی فلور پر کہا تھا کہ شہباز شریف ہی ہمارے وزیراعظم ہیں اور کسی بھی اچھے اقدام میں ہم حکومت کی سپورٹ کریں گے۔
ماہ ستمبر کا پہلا ہفتہ سیاسی طور پر نسبتاً سرد رہا، کچھ قیاس آرائیاں ہوتی رہیں تاہم کچھ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا ہونے جا رہا ہے، پھر اچانک قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کر لیے گئے، آئینی ترمیم کو پیش کر کہ منظور کرانے کی باتیں ہونا لگیں اور ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر سے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ حکومت کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
مزید پڑھیے: مجوزہ آئینی ترامیم، مولانا فضل الرحمان اہمیت اختیار کرگئے، عارف علوی کی اہم ملاقات
اب مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اپوزیشن کی بھی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کی قیادت میں وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور آئینی ترمیم میں حکومت کی حمایت نہ کرنے کی درخواست کی، اس کے بعد بھی کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت کا ساتھ دیں گے اورآئینی ترمیم کی حمایت کریں گے۔
ستمبر کے دوسرے ہفتے میں ہر روز قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد ہوتا رہا اور ہر روز یہی قیاس آرائی کی جاتی تھی کہ آج آئینی ترمیم پیش کی جائے گی، 14 ستمبر یعنی ہفتے کے روز سے حکومت اور اپوزیشن کے وفود کا مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے چند دنوں کے وقفے سے دوسری مرتبہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ پی ٹی آئی کا وفد ملاقات کے لیے مولانا فضل الرحمان کے گھر روانہ ہوا تاہم وہاں پہلے سے موجود حکومتی وفد کے باعث گھر کے باہر سے ہی واپس روانہ ہو گئے۔
مزید پڑھیں: آئینی ترمیم کے لیے مولانا فضل الرحمان کی حمایت نہیں ملی، خواجہ آصف
پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف بھی اس آئینی ترمیم کے سلسلے میں لاہور سے اسلام آباد آئے اور کہا گیا کہ نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف مولانا فضل الرحمان کے گھر جائیں گے اور اس آئینی ترمیم میں حمایت کی درخواست کریں گے تاہم یہ ملاقات نہ ہو سکی اور نواز شریف واپس لاہور روانہ ہو گئے۔ اس وقت پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر رہا تھا، صاحبزادہ حامد رضا سے جب استفسار کیا گیا کہ نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کیوں نہیں کی تو انہوں نے کہا کہ جو حلوہ نواز شریف کھانا چاہ رہے تھے وہ ہم پہلے ہی کھا چکے ہیں۔
اتوار 15 ستمبر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس ساڑھے 11 بجے طلب کیا گیا، تاہم اس اجلاس کے آغاز میں مسلسل تاخیر کی جاتی رہی، کہا جا رہا تھا کہ نمبرز پورے ہونے کے بعد آئینی ترمیم پیش کی جائے گی، اس دوران ایک مرتبہ پھر سے اپوزیشن اور حکومت نے مولانا فضل الرحمان کو منانے کی کوشش کی، تاہم رات گئے تک حکومت مطلوبہ نمبرز پورے کرنے میں ناکام رہی اور اسی وجہ سے آئینی ترمیم پیش بھی نہ کی جا سکے اور آئینی ترمیم کا معاملہ کچھ دن کے لیے مؤخر کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس، مولانا فضل الرحمان کی ترمیمی بل مؤخر کرنیکی تجویز
آئینی ترمیم کا معاملہ کچھ روز کے لیے مؤخر ہونے کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اب بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک دن کے وقفے کے بعد منگل 17 ستمبر کو دوسری مرتبہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور آئینی ترمیم کے مسودے اور تجاویز پیش کرنے کی درخواست کی۔
مولانا فضل الرحمان سے سابق صدر عارف علوی نے بھی منگل کو ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بھی آئینی ترمیم کے حوالے سے مشاورت کی گئی اور کہا گیا کہ عمران خان کی جناب سے عارف علوی کو آئینی ترمیم میں کردار ادا کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
مزید برآں یہ بھی بتایا گیا کہ آئینی ترمیم میں سخت مؤقف رکھنے پر سابق صدر عارف علوی نے پی ٹی آئی کی طرف سے مولانا فضل الرحمان کو مبارکباد بھی پیش کی۔