رہنما جمیعت علما اسلام (ف) کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس سے پہلے جو کچھ بھی کہا اس پر قائم ہوں، ہمیں جو مسودہ حکومت نے دیا وہی مسودہ پیپلزپارٹی نے بھی دیا، پیپلز پارٹی کے مسودے میں بھی آرٹیکل 8 میں ترامیم موجود تھیں۔
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آپ یہ بات دیکھیں کہ پیپلز پارٹی پارلیمان میں ہم سے بڑی جماعت ہے، اگر یہ لوگ ہمارے ساتھ بات چیت کرنے آئے ہیں تو اس کا مطلب ہے یہ راضی تھے۔ اگر پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کے لیے راضی نہ ہوتی تو ہمیں کیوں منانے کی کوشش کرتے۔
مزید پڑھیں: بلاول بھٹو کی پھر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات، آئینی ترامیم پر حمایت کا مطالبہ دہرا دیا
انہوں نے کہا کہ یہ بات کوئی ایک بار نہیں ہوئی مولانا صاحب کے گھر میں کئی بار کی گئی۔ ایک دو معاملات میں پیپلز پارٹی نے یہ بھی کہا کہ آپ کمیٹی میں اعتراض اٹھانا ہم آپ کی حمایت میں وہاں بات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپیشل کمیٹی کی میٹنگ کے دوران بھی گفتگو میں بلاول صاحب نے کہا تھا کہ آپ کے مطالبے پر ہم نے چیزیں ڈیلیٹ کردی ہیں، اور اس کی ریکارڈنگ بھی موجود ہوگی۔
’چیزیں ڈیلیٹ کرنے کا بول رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے ایسی چیزیں موجود تھیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کی پھر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات، آئینی ترامیم پر حمایت کا مطالبہ دہرا دیا
ان کا مزید کہنا تھا کہ مسودے میں بہت ساری چیزیں تھیں جیسے کہ انہوں نے آرٹیکل 8، آرٹیکل 51، آرٹیکل 106، آرٹیکل 63 وغیری کو ٹچ کیا گیا تھا، ہم نے یہی کہا کہ ان کو ٹچ نہ کریں۔ یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ پارٹی کی رائے تھی۔
انہوں نے صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں اصولوں پر بات کرتا ہوں، اور یہ بات تو ہوہی نہیں سکتی کہ میں کسی کا فون نہ اٹھاؤں۔ جب پارٹی کے لوگوں کو مسودہ پڑھ کر سنایا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ترامیم نہیں بلکہ تباہی ہے۔