چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ قانون اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوسکتی، ماضی کی غلطیوں کو اسطرح درست نہیں کیا جاسکتا، ہم عدالتی اصلاحات ضرور متعارف کرائیں گے، آئینی عدالت ناگزیر ہے۔
سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ اس خاندان اور جماعت سےتعلق رکھتے ہیں جس نے ملک کو آئین دیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ 3 نسلوں سے آئین سازی کرتے آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:عدالتی نظام درست کرنے کے لیے آئینی ترمیم وقت کی ضرورت ہے، بلاول بھٹو
’ہم نے آمرانہ دور بھی دیکھا ہے، ہم نے دیکھا 1973 کا آئین لب کی جنبش سے اڑا دیا جاتا ہے، ایک نہتی لڑکی آمر کے سامنے کھڑی ہوئی، جنرل ضیا آمرانہ دور ختم ہوا اور جمہوریت بحال ہوئی۔‘
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ہمارے آئین کو ایک کاغذ کا ٹکرا سمجھ کر پھاڑا گیا اور اس سے افسوس ناک بات کہ جج صاحبان نے ایک آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔ ’ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ہمارے معزز جج صاحبان آمر کو یہ کام کرنے دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ برسوں جمہوریت اور آئین کو بھول جاتے ہیں اور سارا اختیار ایک آمر کو دیا جاتا ہے۔‘
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوسکتی لیکن ججوں نے 184 اور 186 کے نام پر خود کو آئین سازی کا اختیار دیا ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے، عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کیس میں 45 سال بعد انصاف ملا، 2 بھائیوں کو پھانسی دی گئی پھر پتا چلا کہ وہ بے گناہ تھے، اسی طرح ایک عورت اپنی وارثت کے لیے انصاف مانگ رہی ہے، عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس کام کے لیے وہ بیٹھے ہیں وہی نہیں ہورہا ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 15 فیصد سیاسی مقدمات 90 فیصد وقت لیتے ہیں، چاہتے ہیں کہ شہریوں کو فوری انصاف ملے تو پھر آئینی عدالت ضروری ہے، تمام صوبوں کی برابری کے لیے سینیٹ کا نظام ہے، وفاقی آئینی عدالت میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوگی، جیسے ہم نے ماضی میں فیصلہ کیا ویسے ہی آئینی عدالت بنائیں گے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو دھمکی دی گئی کہ ججز کی تعیناتی پر نظر ثانی نہ کریں، امریکا میں آئینی عدالت کے لیے پارلیمنٹ میں جج کا انٹرویو ہوتا ہے، جو جیو اور اے آر وائی والا نہیں ہوتا ہے، اگر پارلیمنٹ کہتی ہے آپ جج بننے کے قابل ہو تو وہ بنتا ہے۔
مزید پڑھیں: کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے، بلاول بھٹو
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ عدلیہ کی سیاست کے شکار ہوں گے نہ وکلا کی۔ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ دونوں کا احترام کرتاہوں، دونوں ججوں کا اتنا احترام کرتاہوں جتنا کسی جج کا نہیں کرتا، دونوں جج اس بیچ میں شامل تھے جنہوں نے قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو کو انصاف دلوایا۔‘
بلاول بھٹو کے مطابق عدالتوں میں 15 فیصد مقدمات آئینی اور 50 فیصد قتل، ڈکیتی اور وراثت کے معاملات سے متعلق ہیں، 15 فیصد مقدمات عدالت کا 90 فیصد وقت صرف کردیتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ آئینی ترمیم کی حمایت میں نہیں بلکہ عدالتی اصلاحات کے لیے آئے ہیں، تمام صوبوں کی نمائندگی کے ساتھ وفاقی عدالت تشکیل دینا ہوگی، جس کا چیف جسٹس تمام صوبوں سے روٹیشن پر ہوگا۔
مزید پڑھیں: کوشش ہوگی پیپلزپارٹی اور جے یو آئی آئینی ترمیم کے مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کرلیں، بلاول بھٹو
بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت کے لیے ہماری نسلوں نے قربانیاں دی ہیں، میثاق جمہوریت میں ہم نے کہا کہ 1973 کے آئین کو بحال کرنا پڑے گا، اس پر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے دستخط تھے، ہم نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ صوبوں کو ان کا حق دیا اور شہید بینظیر بھٹو کا خواب پورا کیا۔