وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور و بین الصوبائی رابطہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم میں ملٹری کورٹس سے متعلق شق پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو ہم اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل پہلے سے موجودہ قانون کے مطابق بھی ہوسکتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہو۔
یہ بھی پڑھیں آئینی ترمیم پر تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، رانا ثنااللہ کا دعویٰ
انہوں نے کہاکہ ہم مولانا فضل الرحمان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، عدالتی اصلاحات سے متعلق ترامیم کا مقصد ہے کہ جوڈیشل کمیشن ججز کی کارکردگی کا پوچھے۔
رانا ثنااللہ نے کہاکہ 63 اے کا فیصلہ تبدیل ہونا چاہیے، کہیں نہیں لکھا کہ پارلیمنٹ بھی سپریم کورٹ کے تابع ہے۔
انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے آمر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا، بتایا جائے یہ اختیار عدالت کو کس نے دیا؟
انہوں نے کہاکہ ادارے اپنی حدود میں رہیں تو بحران نہیں پیدا ہوتا، سپریم کرٹ کو صرف آئین کی تشریح کا اختیار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ جو کہے گا وہ آئین ہے، یہ کس آرٹیکل میں لکھا ہے؟
انہوں نے کہاکہ ہم نے آئینی ترمیم کا مسودہ فضل الرحمان کے سامنے رکھا تو انہوں نے بہت سے سوالات اٹھائے جو ان کا حق تھا۔ آئینی ترمیم کے لیے جے یو آئی کے بغیر ہمارے نمبر پورے نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں عدالتی نظام میں بہت سی تبدیلیاں ہونی چاہییں مگر آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے پاس نمبر پورے نہیں، رانا ثنااللہ
مشیر وزیراعظم نے کہاکہ آئینی ترمیم کے لیے تمام چیزیں مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا چاہیے تھا، صدر، وزیراعظم مولانا کے پاس گئے تو ہم نے سمجھا کہ معاملات فائنل ہوگئے ہیں۔