ایران و اسرائیل خوف کا شکار اور مڈل ایسٹ بارود کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے

جمعرات 3 اکتوبر 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فروری میں حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں ایک دلچسپ بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ اسرائیلی ایجنٹ کون ہیں؟ کدھر ہیں؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جو فون تمھارے ہاتھ میں ہے، تمہاری بیوی کے پاس ہے، تمہارے بچے استعمال کرتے ہیں، یہ اسرائیلی ایجنٹ ہے‘۔

سیل فون کو جاسوس قرار دینے کے بعد حسن نصراللہ نے کہا تھا کہ ’ان کو دفنا دو، ان کو اسٹیل کے بکسوں میں رکھو اور تالا لگا دو‘۔ حزب اللہ نے اپنا کمیونیکیشن سسٹم تبدیل کیا تھا۔ سسٹم تبدیل کرتے ہوئے حزب اللہ نے جو نئے پیجر اور واکی ٹاکی خریدے وہی ان کے خلاف استعمال ہوئے۔

حزب اللہ کی اسٹرینتھ 45000 نفوس پر مشتمل تھی۔ کسی نان اسٹیٹ ایکٹر کی یہ سب سے بڑی اور منظم ترین فائٹنگ فورس مانی جاتی ہے۔ اس کے کچھ یونٹ کو اسرائیلی اسپیشل فورسز کی طرز پر تربیت دی گئی ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد حزب اللہ نے بھی اسرائیل کو لڑائی میں انگیج کر لیا تھا۔ حسن نصر اللہ اس موقع کو فیصلہ کن جنگ ضرور قرار دیا تھا۔ لیکن عملی اقدامات بہت کیلکیولیٹڈ ہی رکھے جا رہے تھے۔ اس کا مقصد اپنی پوزیشن اور سپورٹ کو برقرار رکھتے ہوئے لڑائی کو پھیلنے سے روکنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا چین ٹریڈ وار میں پاکستان کے لیے خیر کی خبر

حملے یہ حساب لگا کر کیے جاتے تھے کہ ان کا نتیجہ کہیں ایک مکمل جنگ کی صورت میں نہ نکل آئے۔ اسرائیلی بھی جنگ پھیلانے سے نروس تھے۔ اسرائیلی کارروائیاں ردعمل میں ہوتی تھیں جو بہت جارحانہ ہوتی تھیں۔ جارحانہ کارروائی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگلے حملے سے بچا جا سکے۔ جولائی میں اسرائیلی شہر میں فٹ بال کھیلتے 12 دروز بچے مارے گئے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے حزب اللہ کے سیکنڈ ان کمانڈ فواد شکر کو ٹارگٹ کیا۔ اس کے بعد لڑائی پھیلتی گئی۔

حسن نصراللہ کو ٹارگٹ کرنے کا حکم خود اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے دیا۔ حسن نصراللہ کے علاوہ حزب اللہ کی آدھی لیڈر شپ کونسل ماری جا چکی ہے۔ حزب اللہ کے 9 میں سے 8 ملٹری کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔ بریگیڈ لیول کے 6 اور بٹالین لیول کے 30 سے زائد کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔ آپریشنل کمانڈر ابراہیم عاقل بھی مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس کا دعویٰ ہے کہ حزب اللہ کی ایلیٹ یونٹ رضوان فورس آدھی سے زیادہ ختم ہو چکی ہے۔

ایران کے سیکیورٹی ڈاکٹرائین میں حزب اللہ اس کی فائٹنگ آرم ہے ۔ یہ ایرانی دفاع کا ہر اول دستہ ہے۔ حزب اللہ لڑائی میں جس طرح ٹارگٹ ہوئی۔ اس سے ایران کے لیے بہت چیلنجنگ صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ وہ ایران جو اسماعیل ہنیہ کا اپنی سرزمین پر مارا جانا پی گیا۔ اس کے لیے اب کچھ کرنا لازم تھا۔ ورنہ اس کی حمایتی تنظیم اور لوگوں میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچتا۔ ایران نے سارے اگلے پچھلے کھاتے فٹ کرتے ہوئے اسرائیل پر میزائل حملہ کر دیا۔

مزید پڑھیے: برکس میں پاکستان کی شمولیت اور برکس کی اپنی کرنسی آنے کی خبریں

اسرائیل کے لیے آن گراؤنڈ ایک مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ حزب اللہ نے شمالی اسرائیل میں مسلسل راکٹ برسائے ہیں۔ اس کے نتیجے میں 60 سے 80 ہزار اسرائیلی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیل اب 25 کلومیٹر کا ایک بفر زون بنانا چاہتا ہے۔ بفر زون بنائے بغیر شمالی اسرائیل میں رہنے والے ان یہودیوں کی واپسی ممکن نہیں۔

 اس وقت جب حزب اللہ اپنی کمزور حالت میں ہے۔ اسرائیل کی ایئر پاور، گراؤنڈ پاور اور انٹیلی جنس پاور کا حزب اللہ سے کوئی مقابلہ نہیں۔ بفر زون بنانے کے لیے اسرائیل کی گراؤنڈ فورسز کی پیش قدمی کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ ایران نے جب حملہ کیا ہے۔ اس وقت  اسرائیل کے اندر بحث جاری تھی کہ یہ ہی موقع ہے کہ حزب اللہ کے خلاف فیصلہ کن وار کیا جائے۔ دوسری رائے یہ دی جا رہی ہے کہ پہلے جب لبنان میں مداخلت کی گئی تھی۔ اس کے بعد بغیر معاہدے کے یک طرفہ واپسی کی گئی تھی۔ تب نتیجہ حزب اللہ کے قیام کی صورت میں نکلا تھا لہٰذا جنگ پھیلانے سے گریز کیا جائے۔

ایرانی حملے کا ایک مقصد حزب اللہ اور ایران کے ریجنل حمایتیوں کا مورال بحال کرنا بھی تھا۔ حزب اللہ کی بحالی ایران کے لیے اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ حزب اللہ کی نئی قیادت کو تنظیم نو بھی کرنی ہے۔ نئے عہدوں پر تقرریاں کرنی ہیں۔ کمیونیکیشن سسٹم کی تباہی کے بعد اپنے اندر اسکروٹنی بھی کرنی ہے۔

مزید پڑھیں: چِپ اور سیمی کنڈکٹر،ایک ایسی فیلڈ جو ہمارے لیے معیشت کی روٹھی محبوبہ منا سکتی ہے

حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کو حماس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ شرط بڑھانے کے لیے رکھی گئی یہ شرط اب ایک مشکل بن چکی ہے۔ لڑائی جاری رکھنا آسان نہیں ہے۔ جنگ بندی کرنا اس سے بھی مشکل ہے کہ وہ ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دے گا۔ خوف کے تحت کیے گئے اقدامات اور خوف ہی تحت دیے گئے ردعمل نے سارے مڈل ایسٹ کو بارود کا ڈھیر بنا رکھا ہے۔ جسے آگ لگنے کے لیے کسی تیلی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp