ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ملک کے مشہور کوہ پیما سرباز خان نے چین کی شیشاپنگما چوٹی سر کرکے 8,000 میٹر بلند دنیا کی تمام 14 چوٹیوں کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
سرباز خان نے سنہ 2019 میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کیا تھا جب وہ سپلیمنٹری آکسیجن کے بغیر نیپال میں دنیا کی چوتھی سب سے اونچی چوٹی، 8,516 میٹر بلند ماؤنٹ لوہتسے کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی بنے تھے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی جس نے انہیں بین الاقوامی کوہ پیمائی کی دنیا میں پہچان دلائی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی کوہ پیما سر باز خان نے مصنوعی آکسیجن کے بغیر ماؤنٹ ایوریسٹ سر کرلی
حالیہ دنوں میں سرباز خان نے 8,586 میٹر بلند دنیا کی تیسری سب سے اونچی چوٹی، کینچن جونگا کو بھی سر کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے پاکستان اور دنیا کی کئی بلند چوٹیوں کو سر کیا جن میں کے 2، نانگا پربت، براڈ پیک، لوہتسے، مناسلو، اناپورنا، ماؤنٹ ایوریسٹ، گیشربرم ٹو، اور داولاگیری شامل ہیں۔ ان کامیابیوں نے انہیں دنیا بھر میں کوہ پیمائی کے شعبے میں نمایاں مقام دلوایا ہے۔
سرباز خان نے نیپالی ٹیم ’امیجن نیپال‘ کے ساتھ مل کر ماؤنٹ شیشاپنگما (8,027 میٹر) کو سر کیا جو دنیا کی 14 ویں سب سے اونچی چوٹی ہے۔ نیپالی وقت کے مطابق یہ کارنامہ شام 4:06 بجے سر انجام دیا گیا۔ اس ٹیم کے ایک رکن مینگمنگ شیرہا نے یہ چوٹی بغیر آکسیجن کے سر کی جو خود ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔
دریں اثنا پاکستانی کوہ پیما شہروز کاشف نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں سرباز خان کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ سرباز خان کی یہ کامیابی صرف ان کی ذاتی کامیابی نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک قابل فخر لمحہ ہے۔
مزید پڑھیے: 6 رکنی پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں کی ٹیم کے2 سر کرنے کے مشن پر روانہ
شہروز کاشف نے کہا کہ سرباز کی یہ فتح ان کی ہمت، عزم اور کوہ پیمائی کی غیر معمولی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بھی سرباز خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ملک کا نام عالمی سطح پر مزید روشن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سرباز خان کی اس کامیابی نے نہ صرف انہیں بلکہ پاکستان کو عالمی کوہ پیمائی کے میدان میں ایک نمایاں مقام دلوایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستانی قوم میں دنیا کے بلند ترین خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔
سرباز خان سنہ 1986 میں علی آباد ہنزہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے کوہ پیمائی کا آغاز 2016ء میں کیا۔ ان کا یہ سفر محنت، لگن اور مستقل مزاجی کا عکاس ہے جس کے تحت انہوں نے پاکستان کے لیے ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کیا۔