صیہونی افواج کے ہاتھوں ماری جانے والی 10 سالہ راشا کی وصیت پر من و عن عمل کیوں نہ ہوسکا؟

جمعہ 4 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزہ کی 10 سالہ راشا العریر کو یہ تو اندازہ ہوچکا تھا کہ صیہونی بربریت اس کے علاقے میں بسے افراد کی جس طرح جانیں لے رہی ہے بالکل اسی طرح وہ بھی جلد ہی بم اگلتے کسی عفریت کا نشانہ بن جائے گی لیکن شاید اسے ایک جھوٹی آس ضرور تھی کہ اس سے ایک سال بڑے بھائی احمد کو کچھ نہیں ہوگا تب ہی اس نے اپنے قتل کے بعد اپنی ایک عزیز ترین شئے احمد کو دینے کی وصیت کردی۔ راشا نے ایک خط میں یہ بھی بتادیا تھا کہ اس کے کپڑے و دیگر اشیا کن کو دی جائیں۔

راشا کی وصیت تو اس کے رشتے داروں کو مل گئی لیکن اس پر پوری طرح عمل کرنا ان کے بس میں نہیں تھا کیوں کہ وہ مالا کا ڈبہ جو راشا نے احمد کو دینے کی ہدایت کی تھی گھر کے ملبے تلے سے نکل تو آیا لیکن اسے احمد کو دینا اب ممکن نہیں رہا تھا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی جہازوں کی بمباری کا نشانہ جب راشا کا گھر بھی بنا تو اس کے ایک حصے میں اس کے ساتھ اس کا 11 سالہ بھائی احمد بھی موجود تھا اور دونوں بھائی بہن نے ایک ساتھ ہی جام شہادت نوش کیا تھا اور دونوں کے خون میں لت پت مردہ جسم اسرائیل کی ایک اور فتح کا شادیانہ بجا رہے تھے۔

پھر ریسکیو کے عملے کو ملبے تلے راشا کے ہاتھ کا لکھا وہ خط بھی مل گیا جس میں اس نے اپنی چیزوں کو بھائی احمد سمیت دیگر میں تقسیم کرنے کی وصیت کی تھی۔

ریسکیو ٹیموں نے راشا کا نوٹ اس کے گھر کے ملبے کے درمیان سے دریافت کیا۔ اس میں اس نے بڑی تفصیل اور احتیاط سے اپنی آخری خواہشات کا خاکہ پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: بیروت پر شدید اسرائیلی بمباری، کیا حسن نصراللہ کے ممکنہ جانشین ہدف تھے؟

راشا نے خط میں بڑی باریک بینی سے اپنے ’اثاثوں‘ کا حساب کتاب لگایا تھا اور دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ اس کی ہدایت پر من و عن عمل کیا جائے۔ معصوم بچی کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے وہ اسکول میں کسی امتحانی سوال میں دیکھا کرتی ہوگی۔ اس نے ابتدا میں لکھا ’میری وصیت: میرا سامان مندرجہ ذیل طریقے سے تقسیم کیا جائے‘۔

پھر راشا نے لکھا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ میرا سامان میرے کزن رحف مروان العریر، سارہ الزہرانہ، جودی رجب، لنا رجب اور بتول العریر کو دیا جائے‘۔

راشا نے آگے لکھا ’میں چاہتی ہوں کہ میرے مالا کے ڈبے احمد اور رحف مروان العریر کے پاس جائیں، میرا 50 شیکل کا ماہانہ الاؤنس رحف اور احمد میں برابر تقسیم کیا جائے یعنی 25 شیکل فی کس‘۔

اس نے آگے کہا کہ اس کی کہانیوں کی کتابیں اور نوٹ بکس رحف کو اور اس کے کھلونے بتول کو دیے جائیں۔

پھر اچانک راشا کے دل میں بھائی احمد کی محبت امڈ آئی اور اس نے گھر والوں سے اسے کبھی نہ ڈانٹنے کی درخواست کی۔ اس نے لکھا ’براہ مہربانی، میرے بھائی احمد پر چیخا مت کریں‘۔

مزید پڑھیے: مشترکہ دشمن اسرائیل کیخلاف امت مسلمہ کو اکٹھا ہوجانا چاہیے، آیت اللہ خامنہ ای

راشا نے اپنے خط میں آگے اپنی غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ آپ میرے لیے نہیں روئیں گے کیوں کہ آپ کے آنسو دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے‘۔

راشا کی وہ وصیت اس کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر ڈال دی گئی اور ایک بار پھر وہی ہوا یعنی اس بچی کی وصیت پر من و عن عمل نہیں ہوا۔ پڑھنے والے اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پاسکے اور ننھی راشا کی وصیت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

راشا اور احمد تک ہی موقوف نہیں بلکہ آج سے تقریباً سال بھر پہلے یعنی7  اکتوبر 2023 سے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ساڑھے 16 ہزار بچے دنیا سے اٹھ چکے ہیں۔ مرنے والی خواتین کی تعداد 11 ہزار ہے جبکہ کل 41 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

بم دھماکوں میں تقریباً ساڑھے 95 ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پٹی میں 2 تہائی عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔

جو افراد بموں اور گولیوں سے بچ گئے ہیں اب وہ بھوک کے ہاتھوں موت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ڈبلیو ایف پی کے تخمینے کے مطابق تقریباً 11 لاکھ افراد فاقہ کشی سے نبردآزما ہیں کیوں کہ اسرائیل کی طرف سے محصور علاقوں میں خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن کی فراہمی پر سخت پابندی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp