شہباز شریف کا ایک سال، کیا کھویا کیا پایا؟

منگل 11 اپریل 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ کسی سے یہ سوال کیا جائے کہ شہباز شریف کی حکومت کا ایک سال کیسا گزرا؟ اس سوال پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا۔

بیجنگ سے لوٹتے ہوئے میری ایک سفارتکار سے ملاقات ہوئی۔ یہ صاحب شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے بعد پاکستان لوٹ رہے تھے اور اجلاس بھی وہ جس میں پاکستان نے اس تنظیم کی مکمل رکنیت کے بعد پہلی بار شرکت کی تھی اور اس کا وہاں بھرپور خیر مقدم ہوا۔

ان کا خیال تھا کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے اور اس سے نکلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اقتدار عمران خان کے سپرد کردیا جائے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال بدل جائے گی۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اقتدار دینے والوں نے عمران خان کو اقتدار دے دیا، اس کے بعد صورتحال ایسی بدلی کہ توبہ ہی بھلی۔

پاکستان سفارتی تنہائی سے ایسا نکلا کہ عمران خان یہ دہائیاں دیتے ہوئے ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے کہ امریکا کا صدر ان سے بات نہیں کرتا اور بھارت کا وزیرِاعظم ان کا فون نہیں اٹھاتا۔

خارجہ تعلقات میں ایک اور کارنامہ اسلامی تعاون تنظیم کی تقسیم کے منصوبے میں ان کی شرکت تھی جبکہ چین کے ساتھ تو اقتدار میں آتے ہی تعلقات بگاڑ لیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک نہ صرف بدترین سفارتی تنہائی کا شکار ہوگیا بلکہ اقتصادی مسائل بھی بتدریج سنگین ہوتے گئے۔

شہباز شریف اقتدار میں آئے تو ایک طرف ان پر عمران خان کے پیدا کردہ سیاسی مسائل کا دباؤ تھا تو دوسری طرف ان کے سامنے نواز شریف حکومت کی کارکردگی کا معیار تھا۔ سیاسی نفسیات میں اس قسم کے چیلنج بہت پیچیدہ اور مشکل ہوتے ہیں جن سے نمٹتے ہوئے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوجاتا ہے۔ یقیناً شہباز شریف کی حکومت بھی ایسی کیفیات سے ہی گزری ہوگی لیکن آج دباؤ کا شکار یہی حکومت عالمی سطح پر بڑی آسودگی محسوس کرتی ہے۔

صرف یہ نہیں کہ سعودی عرب اور چین سمیت جن دیگر دوستوں کو عمران حکومت نے ناراض کرکے دوستوں کی صف سے نکال باہر کرنے کے لیے تمام حدود پھلانگ ڈالی تھیں بلکہ وہی ملک آج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے ان کی طرف سے صرف سیاسی نہیں اقتصادی تعاون بھی میسر آ رہا ہے۔

پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں عمران دورِ حکومت خاص طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کشمیر کے سلسلے میں بھارت کی خواہشات پوری کرنے کا ذکر ہوچکا۔ تاریخ میں یہ ضرور یاد رکھا جائے گا کہ انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ہر حد عبور کرلی گئی اور یہ کہہ کر بھارت کے مسلمانوں کو ان کی حمایت کرنے کا اشارہ تک دیا گیا کہ مودی کی کامیابی کی صورت میں مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا۔ مسئلہ کشمیر تو جیسا حل ہوا، تاریخ جانتی ہے لیکن اپنی حمایت کے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے انہوں نے مودی کے لیے بدزبانی شروع کردی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے ان کا ٹیلی فون تک سننے سے انکار کردیا۔

شہباز حکومت کے دور میں بھارت کے ساتھ معاملات اگرچہ مذاکرات کی سطح تک تو نہیں پہنچ سکے لیکن تلخی میں اتنی کمی ضرور پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے امکانات کی امید کی جاسکتی ہے۔

شہباز شریف کے دورِ حکومت میں خارجہ محاذ پر جو غیر معمولی پیشرفت ہوئی ہے، ظاہر ہے کہ اس کے مثبت اثرات قومی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات مثبت طور پر آگے بڑھ چکے ہیں۔ روس سے تیل اور گیس کی درآمد بھی شروع ہورہی ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ ملک سفارتی تنہائی سے نکلنے کے بعد اقتصادی ہمواری کی طرف بھی پیشرفت کرے گا جس کے نتیجے میں عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم ہوگا اور ان کا معیارِ زندگی بہتری کی طرف بڑھے گا۔ موجودہ سفارتی اور اقتصادی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے یہ توقع بے جا نہیں ہوگی کہ بہت تھوڑے عرصے میں ملک اقتصادی دباؤ سے نکل جائے گا۔

اقتدار میں آنے کے بعد شہباز حکومت کو ورثے میں ملنے والا ایک اور چیلنج اداروں کے درمیان محاذ آرائی تھا۔ جمہوری قوتوں اور اداروں کے درمیان اختلافات کی تاریخ مختصر نہیں۔ ان اختلافات کے نتیجے میں بڑے بڑے حادثے بھی ظہور پذیر ہوئے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سیاسی گروہ نے قومی مفادات پر اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دے کر تمام حدود پھلانگ ڈالی ہوں۔ اس بار پاکستان میں ایسے بدصورت مناظر بھی دیکھے گئے۔ یہ صورت مزید بدنما ہوسکتی تھی اگر شہباز شریف کی حکومت اعتدال کا دامن پکڑ کر اصلاح احوال کی کوشش نہ کرتی۔

یہ اسی ہم آہنگی اور اصلاح احوال کا نتیجہ ہی ہے کہ آج دہشتگردی کے خلاف ایک اور جنگ کا آغاز کامیابی کے ساتھ کیا جاچکا ہے۔

اس وقت سیاسی جمہوری اداروں اور عدلیہ کے درمیان جو کشیدگی دکھائی دیتی ہے، یہ بھی عمران حکومت کا ورثہ ہے جسے عمران خان اور ان کی جماعت مسلسل گہرا کرتی جا رہی ہے۔ بہت بدقسمتی ہوگی، اگر اس کشیدگی کے نتیجے میں کوئی حادثہ رونما ہوجائے۔ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کی بنیاد علاج بالمثل ہے، ایسا لگتا ہے کہ اسی طریقے سے اصلاح کا ایک عمل جاری ہے اور حکومت جس کی اثر انگیزی کے لیے موقع فراہم کررہی ہے۔ امید اور دعا کرنی چاہیے کہ یہ مرحلہ کسی بڑے نقصان سے پہلے از خود ہی اپنے انجام کو پہنچ جائے۔

عمران دور میں سیاسی انتقام کی وجہ سے قومی سیاست کا پانی بہت گدلا ہوچکا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمے اور تعاون کا ہر امکان دم توڑ چکا تھا۔ تقریباً ہر سیاسی جماعت کے درجنوں کارکن اور رہنما برسوں کے لیے جیل میں پھینک دیے تھے اور ایسا کرتے ہوئے پاکستان کی تہذیبی اقدار کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت اقتدار میں آنے کے بعد حساب برابر کرنے کی کوشش کرتی تو ملک سیاسی میدانِ جنگ بن جاتا لیکن شہباز شریف کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ ان کی حکومت نے عمران حکومت سے سبق سیکھا اور حزبِ اختلاف کے خلاف کسی قسم کی کوئی ناجائز کارروائی نہیں کی۔

اس وقت پی ٹی آئی اور عمران خان سمیت جو چند قائدین مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ کچھ ایسے جرائم کا نتیجہ ہیں جو سیاسی نہیں بلکہ دفاعی اداروں کے خلاف ایسا زہریلا پروپیگنڈا جس کے تانے بانے ملک سے کہیں باہر ہیں یا پھر کرپشن ہے۔

تحریک انصاف نے ان مقدمات سے نمٹنے کے ضمن میں بھی سیاسی طرزِ عمل اختیار کرنے کے بجائے ریاست کو چیلنج کرنے کا رویہ اختیار کیا ہے جو مناسب نہیں، اس کے باوجود حکومت تحمل سے کام لے رہی ہے جس کا اسے کریڈیٹ ملنا چاہیے۔

عمران خان اقتدار میں آئے تو شہباز شریف نے انہیں مل کر چلنے کی پیشکش کی، خاص طور پر معیشت کے سلسلے میں۔ جب وہ خود اقتدار میں آئے تو بھی انہوں نے ماضی کو فراموش کرتے ہوئے مل کر چلنے کی پیشکش کی لیکن عمران خان نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سیاست کرنے کے بجائے سڑکوں کو گرم کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس میں ناکام ہونے کے بعد بھی وہ اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد، حکومت نے بھی اپنے دروازے بند کرلیے۔ شہباز حکومت کی طرف سے یہ پہلا موقع ہے جسے جیسے کو تیسا کی پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے۔

شہباز حکومت نے یہ راستہ بھی شاید اس لیے اختیار کیا ہے کہ اب وہ اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ عمران خان جس راستے پر چل رہے پیں، بالآخر اسی میں ان کی شکست ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp