امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کملا ہیرس کو شکست دینے کے بعد سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر زور دیتے ہوئے قوم سے مصالحتی خطاب میں کہا ہے کہ وہ اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:کملا ہیرس کی ناکامی کا ذمہ دار جوبائیڈن، غضبناک ڈیموکریٹس پھٹ پڑے
جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتے ہیں یقیناً اس کے نتائج سے امریکی انتخابی نظام کے صاف و شفاف ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات ختم ہو جائیں گے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 میں ڈیموکریٹ پارٹی کے ہاتھوں اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہم ایک دوسرے کو مخالف کے طور پر نہیں بلکہ ساتھی امریکیوں کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے کس کو ووٹ دیا ہے۔ اب سیاسی بڑھکاؤ کو کم کریں۔
جمعرات کو جب جو بائیڈن خطاب کے لیے روز گارڈن پہنچے تو وائٹ ہاؤس کے عملے نے کھڑے ہو کر ان کے لیے تالیاں بجائیں۔
مزید پڑھیں: آئندہ چند ماہ اہم، امریکا فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، جوبائیڈن کا صدراتی دوڑ سے دستبرداری کے بعد پہلا خطاب
81 سالہ ٹرمپ نے جولائی میں ٹرمپ کے خلاف دوڑ سے دستبرداری اختیار کی تھی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی اپنی نائب صدر کملا ہیرس کو سونپ دی تھی۔
جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ انہوں نے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کرکے کامیابی پر مبارکباد دی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ ہم اقتدار کی ’پرامن اور منظم‘ منتقلی کو یقینی بنائیں گے۔انہوں نے ٹائم پریڈ دیتے ہوئے کہا کہ 20 جنوری کو امریکا میں اقتدار کی پرامن منتقلی مکمل ہو جائے گی۔
سبکدوش ہونے والے امریکی صدر نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اس امید کو مت کھوئیں کہ ممکنہ طور پر وائٹ ہاؤس میں واپسی کے ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ ان کی بہت سی پالیسیوں کو ختم کردیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا؟
انہوں نے اپنے حامیوں کو پارٹی کے ارکین سے کہا کہ ’ یاد رکھیں، شکست کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہار گئے ہیں‘۔
جو بائیڈن کا یہ بیان ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کے بالکل برعکس تھا، کیونکہ 4 سال قبل انتخابات میں شکست سے انکار کے نتیجے میں 6 جنوری 2021 کو امریکی دارلحکومت میں ٹرمپ کے حامیوں نے ان پرتشدد حملہ بھی کیا تھا۔
جو بائیڈن نے اپنے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی دعوت بھی دی ہے۔ دوسری جانب عالمی رہنماؤں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے قوم پرستانہ’امریکا فرسٹ‘ کے نظریے کے بارے میں دنیا کے بیشتر ممالک نے خدشات کے باوجود ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: شکست کے بعدکملا ہیرس کا پہلا بیان سامنے آگیا
چین کے صدر شی جن پنگ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک پیغام میں کہا کہ بیجنگ اور واشنگٹن کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے راستہ تلاش کرنا چاہیے۔