گورنر پنجاب سیلم حیدر خان نے 10مئی کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں ایک فارمولا طے پایا کہ جو آئینی عہدے ہونگے وہ پیپلزپارٹی لے گی، حکومت کے اتحادی ضرور ہیں مگر وزراتیں نہیں لیں گے۔ وفاق کی حد تک پیپلزپارٹی کے ن لیگ کے ساتھ معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہے ہیں لیکن پنجاب میں پیپلزپارٹی، مریم نواز کی حکومت سے خوش نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی کئی دفعہ یہ کہہ چکے ہیں کہ پنجاب میں ہمیں پاور شیئر نہیں مل رہا جو ملنا چاہیے تھا، پیپلزپارٹی کے پنجاب میں تحفظات دور کرنے کے لیے ایک پاور شیئرنگ کمیٹی بھی بنائی گئی جس میں پیپلزپارٹی کی جانب سے راجہ پرویز اشرف، ندیم افضل چن، حسن مرتضیٰ، علی حیدر گیلانی شامل ہیں، جبکہ ن لیگ کی طرف سے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، مریم اورنگرزیب اور ملک احمد خان شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: ن لیگ سے اتحاد ایک بھیانک تجربہ ہے، گورنر پنجاب سلیم حیدر
اس مذاکراتی ٹیم کی اب تک 6میٹنگز ہوچکی ہیں مگر پیپلزپارٹی کے تحفظات ابھی تک دور نہیں کیے گئے۔ جب پنجاب حکومت نے صوبے کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز لگانے کے لیے سمری گورنر پنجاب کو بھیجی تو انہوں نے یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کردیا کہ یہ فہرستیں میرٹ پر تیار نہیں کی گئی ہیں۔
26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف پر بھی تنقید کی گئی، انہوں نے کہا کہ کسی جج کو ایکسٹینشن دینے سے عدلیہ متاثر ہوگی۔ ن لیگ نے پہلے پہل اس تنقید کو وائس چانسلرز کی تعیناتی میں ’حصہ داری‘ سے تعبیر کیا کہ گورنر اصل میں اپنی مرضی سے تقرریاں کرنا چاہتے ہیں۔
حال ہی میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے مریم نواز کی حکومت کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ حکومت سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ کیوں کر رہی ہے، یہ تعلیم کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اب اسموگ کے معاملے پر گورنر پنجاب نے حکومت پنجاب پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اس حکومت سے زیادہ اچھے اقدامات نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے کیے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ گورنر پنجاب کو مریم نواز کی بطور وزیر اعلیٰ حکومت پسند نہ ہونے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ وہ تنقید کرتے ہیں۔
گورنر پنجاب پاور شیئرنگ کمیٹی ختم کرنا چاہتے ہیں؟
پیپلزپارٹی ذرائع کے مطابق پاور شیئرنگ کمیٹی کی ابھی تک 6میٹنگز ہوچکی ہیں لیکن معاملات جوں کے توں ہیں، پیپلزپارٹی نے ن لیگ سے ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان اور پنڈی ڈویژنز میں انتظامی معاملات میں پاور شیئرنگ مانگی تھی، جس پر ن لیگ کے کمیٹی کے ممبران نے کہا تھا کہ مشاورت کے بعد بتائیں گے لیکن 6میٹنگز ہوچکی ہیں لیکن ان کی مشاورت مکمل نہیں ہوئی۔
پیپلزپارٹی ذرائع نے بتایا کہ گورنر پنجاب سلیم حیدر کا کہنا ہے کہ حکومت سازی سے قبل تحریری طور پر پاور شیئرنگ فارمولہ طے ہوا تھا جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی متعدد بار میٹنگز ہوئیں لیکن عمل درآمد کچھ نہیں ہوا۔ اب یہ میرے لیے مناسب نہیں کہ ہم روز گزارش کریں کہ آئیں میٹنگ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر پنجاب نے پی ٹی آئی پر پابندی کی مخالفت کردی
بلاول بھٹو زرداری کو صوبے کی سطح پر پاور شیئرنگ فارمولا ختم کرنے کی تجویز دی ہے کیونکہ ن لیگ سے یا وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ کوئی امید نہیں لگانی چاہیے۔ ہمیں ن لیگ سے توقع ہی نہیں رکھنی چاہیے کہ ہمیں پنجاب میں کچھ لینا ہے، اپنے ساتھیوں کو بتا دیں گے کہ ہم پنجاب میں اپوزیشن میں ہیں جبکہ ترقیاتی کاموں کے بجائے میرٹ کی سیاست کریں گے۔
گورنر پنجاب کی تنقید پر حکومت پنجاب کا کیا موقف ہے؟
ن لیگ کیمٹی کے ایک ممبر نے بتایا کہ پاور شیئرنگ فارمولا پر عمل ضرور ہوگا، ملتان شہر میں پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کیے گئے ہیں، انہیں وہاں پر برابر کے ترقیاتی فنڈز بھی دیے جا رہے ہیں، انتظامی معاملات میں بھی وہاں پر تعاون کیا جارہا ہے، باقی ڈویژن میں بھی ان کے کچھ نہ کچھ معاملات حل ہوئے ہیں۔ گورنر پنجاب کی تنقید درست نہیں ہے، جب مذاکراتی کمیٹی بیٹھے گی تو معاملات مزید بہتری کی طرف جائیں گے۔ گورنر پنجاب سیلم حیدر خان تنقید کے بجائے اپنی اصلاح کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔