نہ منصور کو کسی نے مسند انصاف پر بٹھایا، نہ خان کو کسی بین الاقوامی درسگاہ نے چانسلر بنایا، نہ کسی نے ڈیل آفر کی نہ کوئی انقلاب آیا، نہ کوئی کامیاب جلسہ ہوا اور نہ ہی خان صاحب کی رہائی کے لیے کوئی تاریخی دھرنا ہوا۔ نتیجتاً خان صاحب کی سیاست بنا کچھ کہے، بنا کچھ بتائے، دھیرے دھیرے دم توڑ رہی ہے۔ اور اس کے بارے میں نہ کوئی شور مچا رہا ہے نہ کوئی کسی کو بتا رہا ہے۔
پی ٹی آئی ایسے انجام کو پہنچ رہی ہے جیسے دلدل میں کوئی اپنے ہی بوجھ سے دھنس رہا ہو۔ جیسے کوئی صیاد اپنے ہی دام میں آ گیا ہو۔
سیاسی جماعتوں پر مشکل وقت آتے ہیں۔ اور وہ ان کا مقابلہ کرتی ہیں۔ ایک وقت کے بعد پھر انہیں عروج ملتا ہے۔ یہ سبق تاریخ کا بھی ہے اور شماریات کا بھی۔ ہر زوال کو عروج ہے اور ہر عروج کو زوال ہے لیکن تاریخ کا یہ پہیہ الٹے دائرے پر بھی آ جاتا ہے۔ کبھی حالات معکوس بھی ہو جاتے ہیں۔ کبھی تاریخ کی کمان سے نکلا تیر حتمی ہو جاتا ہے جو واپس نہیں آتا۔ پھر ایسے میں بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ گیا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔
تحریک انصاف کا زوال اس لیے اٹل ہے کہ اس کے خمیر میں تخریب کا پہلو موجود ہے۔ چند ایسی باتیں اہلیان تحریک انصاف کی سوچ میں شامل ہیں جو ان کے لیے عذاب بن رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں مزید اضافے کا قوی امکان ہے۔ جن بنیادوں پر یہ جماعت کھڑی ہے وہ بنیادیں ہی کھوکھلی ہیں۔ یہ ریت کا ایک محل ہے جو زمین بوس ہوچکا ہے لیکن اس کے انہدام کا کسی کو یقین ہی نہیں آرہا۔ جس شعور کی تحریک انصاف نے پرورش کی ہے ایک وقت میں وہ شعور اسی کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گا، یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔
تحریک انصاف کا سب سے بڑا ہتھیار سوشل میڈیا ہے۔ جلسہ کرنا ہو، جلوس نکالنا ہو، تحریک چلانی ہو، ٹرینڈ بنانا ہو۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو گالم گلوچ کے لیے اکٹھا کرنا ہو، کسی محاذ کو کھولنا ہو، کسی کی پگڑی اچھالنی ہو، کسی کی عزت کو تار تار کرنا ہو۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا سب سے آگے ہوتا ہے۔ اس سے کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ کسی کو اس سے مفر نہیں ہے۔ یہ وہ زہر قاتل ہے جس کا کوئی تریاق نہیں۔ اس کے ڈسے کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کا ایک شعبہ سوشل میڈیا ہوتا ہے جبکہ تحریک انصاف بذات خود ایک سوشل میڈیا ونگ ہے جس کے پاس ایک سیاسی جماعت بھی ہے۔ اس سوشل میڈیا ونگ کو ہیجان درکار ہے۔ انتشار اس کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔
عمران خان جیل میں ہیں تو یہ میڈیا بے بس نظر آتا ہے۔ ان کے انتشاری بیانیے پر پیٹرول چھڑکنے والی ذات عمران خان کی ہے۔ جب وہاں سے آواز نہیں آتی تو نفرت کی آگ ٹھنڈی ہونے لگتی ہے جو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے لیے موت ہے۔ ان کو یہ خبر سنائیں کہ عمران خان جیل میں آرام سے ہیں تو ان کے ’ویوز‘ گر جاتے ہیں۔ اور اگر خبر یہ آئے کہ عمران خان پر تشدد ہوا اور مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیا گیا تو ’یوٹیبرز‘ کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ’ویوز‘ کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ ڈالروں کی بوریاں بھرنے لگتی ہیں۔
اب جس مقام پر تحریک انصاف آ چکی ہے اس کے سوشل میڈیا پر صرف عمران خان کے حوالے سے بری خبر بکتی ہے۔ اور اس خبر کو پانے کے لیے یہ کیا کچھ کر سکتے ہیں اس کی بہت سی مثالیں ماضی میں موجود ہیں۔ میری بات کا یقین کیجیے کہ مستقبل میں یہی سوشل میڈیا خان کی زندگی اور سلامتی کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اسے عمران خان کے حوالے سے بری خبر ہی درکار ہوتی ہے۔
اور۔۔۔۔۔ جو افراد یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ڈیل ہونے والی ہے، خان کسی وقت بھی باہر آنے والا ہے، برطانیہ سے کمک آنے والی ہے۔ خان کو باہر بھیجنے پر اتفاق رائے ہو چکا ہے وغیرہ وغیرہ، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ انہیں اس ملک کی سیاست اور تاریخ کا ادراک ہی نہیں ہے۔ عمران خان نے جو کچھ کیا اب وہ کسی ڈیل کے مستحق نہیں رہے۔ عمران خان جس شاخ پر بیٹھے تھے اسی کو کاٹ دیا ۔جس کھیت کی مولی تھے اسی کھیت کو اجاڑ دیا۔ جس تھالی میں کھاتے تھے اسی میں چھید کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ ڈیل کون کرے گا؟ حکومت؟ سچ مانیے تو ا س حکومت میں حکومت کرنے کی ہمت نہیں، ڈیل کرنا تو دور کی بات ہے۔ سیاستدانوں نے کبھی کسی کو ڈیل نہیں دی۔ وہ کبھی اس قابل ہی نہیں رہے۔ ڈیل وہی دیتے ہیں جو ڈیل دے سکتے ہیں۔ اگر آپ ان سے عمران خان کے حوالے سے ڈیل کا سوال کریں تو پہلے اپنے کان پکڑتے ہیں، پھر آپ کو کان پکڑوا دیتے ہیں۔ اپنے ادارے اور اپنے شہدا کی حرمت کی حفاظت کا جو بیانیہ انہوں نے نو مئی کو بنایا وہ اس سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ سکتے، یہ ان کو بہت اچھی طرح معلوم ہے۔
وہ خان کو سر چڑھانے کی غلطی دوبارہ نہیں کر سکتے۔ وہ اس کو دوبارہ گود لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب سیاست دان بے بس ہیں، اسٹیبلشمنٹ ڈٹی ہوئی ہے۔ عدلیہ کی جانب سے اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔ عوام کی لاکھوں کی تعداد کبھی خان کے حق میں نہیں نکلے گی تو سوال یہ کہ ڈیل کروائے گا کون؟
تحریک انصاف کے دامن میں اب ایک ہی امید پڑی ہے کہ کسی طرح نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے حق میں آواز لگائے۔ جس کے خلاف ’ایبسولیوٹلی ناٹ‘ کا علم بلند کیا تھا اسی کی منت سماجت کی جائے۔ اسی ضمن میں تحریک انصاف والوں نے ٹرمپ کے خلاف ٹویٹ کرنے والی کی سوشل میڈیا پر شکایتیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ زلفی بخاری کی ٹرمپ کی بیٹی سے ملاقات کی کہانیاں گھڑنا شروع کر دی ہیں۔
اگرچہ امریکا سے مدد آنے کا کوئی امکان نہیں، فرض کریں ایسا ہو جاتا ہے تو یہ تحریک انصاف کی سب سے بڑی شکست ہو گی۔ اس وقت خان صاحب کو پتہ چلے گا کہ کارکنوں کو جو شعور دیا گیا وہ صرف گالی دینے تک محدود ہے۔ اور پھر گالیوں کا مخاطب وہ شخص ہو گا جس نے نعرہ لگایا تھا کہ کیا ہم کوئی غلام ہیں؟