روس اور پاکستان کے تعلقات تیزی سے بہتر ہوئے ہیں۔ ستمبر میں روس کے ڈپٹی وزیر اعظم الیکسی اوورچک 2 روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے۔ ماسکو میں روس پاکستان انویسٹمنٹ فورم کا انعقاد ہوا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتین پاکستان کو نارتھ ساؤتھ کاریڈور میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں۔
روسی صدر پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کو ستمبر 2022 میں ایس سی او سمٹ کی سائڈ لائن پر ملے تھے۔ روسی صدر نے تب شہباز شریف سے کہا کہ روس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کو گیس فراہم کر سکتا ہے۔ ایسا آسانی سے ممکن ہے، قازقستان، ازبکستان اور روس میں پہلے ہی خاصا انفراسٹرکچر بنا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرین کو ٹرمپ پروف بنانے کی کوشش
روس، بیلاروس، قازقستان، ازبکستان، افغانستان اور پاکستان ایک ایم او یو اگست 2023 میں سائن کر چکے ہیں۔ اس کے تحت ایک ٹرانسپورٹ کاریڈور ان سب ملکوں کے درمیان تعمیر ہوگا۔ روسی ڈپٹی وزیر اعظم نے اسلام آباد دورے میں دوبارہ اس کاریڈور کا حوالہ دیا۔ اس کا نام ابھی نہیں رکھا گیا ہے۔ متوقع نام سینٹرل یوریشین کاریڈور یا ایس سی او کاریڈور ہو سکتا ہے۔
Central Eurasian Corridor (CEC) or the SCO Corridor
پاکستان، افغانستان، ازبکستان ریلوے کو اسی کاریڈور سے ملنا ہے۔ ان دونوں کاریڈور کو انڈیا تک توسیع دی جائے گی۔ روس صرف پاکستان اور افغانستان ہی میں ثالثی کے لیے سرگرم نہیں ہے، بلکہ انڈیا اور پاکستان کو بھی تنازعات کے حل میں مدد کی پیشکش کر رہا ہے۔ اس کے لیے وہ پہلے مرحلے میں تینوں ملکوں کو دہشتگردی کے خلاف تعاون پر جمع کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ، کشنر، کپتان، زلفی اور زلمے
یوکرین کی جنگ نے روس کو ایشیا میں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا کی طرف متوجہ کر دیا ہے ۔یوکرین کی جنگ کے بعد روس اپنے معطل منصوبوں پر عمل کی طرف واپس آیا ہے۔ انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ کاریڈور تیزی سے بحال ہو رہا ہے۔ یہ روس کو ایران کے راستے انڈیا سے ملاتا ہے۔
اس کاریڈور میں برانچ کاریڈور آذربائیجان، کیسپین سی اور سینٹرل ایشیا میں بھی تعمیر ہونے ہیں۔ افغانستان اس نارتھ ساؤتھ کاریڈور میں اہمیت رکھتا ہے۔ انڈیا افغانستان کے اچھے تجارتی تعلقات ہیں۔ دونوں ملک پہلے ہی ایران کے راستے تجارت کو بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔
روس، افغان طالبان کو ٹیررسٹ لسٹ سے نکالنے جا رہا ہے۔ وہ افغان طالبان کو داعش خراسان کیخلاف مددگار کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ داعش روس میں حملے کرتی ہے۔
پیر 25 نومبر کو کابل میں روسی وفد نے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ وفد کی سربراہی روس کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل سرگئی شوئیگو نے کی۔ نائب وزیر اعظم الیکسی اوورچک، قومی سلامتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری الیگزینڈر وینڈیکٹوف، افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف وفد میں شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کپتان کے لیے کچھ نہیں کرے گا
افغانستان کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر، وزیر سرحدات، قبائل اور قبائلی امور، انٹیلی جنس چیف، چیف آف آرمی سٹاف، وزارت داخلہ اور خارجہ کے نائب وزرا شامل تھے۔ دورے میں افغانستان کو پیغام دیا گیا کہ روس ریلوے، ٹرانسپورٹ، صنعت، زراعت، بجلی اور کان کنی کے شعبوں میں منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔
روسی وفد نے افغان طالبان کو ٹیررسٹ لسٹ سے نکالنے اور شنگھائی تعاون تنظیم میں افغانستان کو مبصر رکن کے طور پر نشست دوبارہ حاصل کرنے میں مدد کا بھی یقین دلایا۔ چین کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے و شیاؤنگ بھی کابل اور اسلام آباد کے دورے کر رہے ہیں۔ ترکمانستان کے ایک وفد نے ہرات کے گورنر مولانا اسلام جار سے ملاقات کی ہے۔ اسلام جار تاپی گیس لائن پراجیکٹ کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں ۔
ترکمانستان کے وفد نے اسلام جار کو تاپی پراجیکٹ کے لیے تکنیکی سامان کی ایک لسٹ فراہم کی ہے۔ یہ سامان افغانستان منتقل کیا جانا ہے۔ افغانستان کے اندر تاپی گیس پائپ لائن پراجیکٹ کی تعمیر کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس سارے پس منظر کے ساتھ پاکستان میں پی ٹی آئی نے تب فائنل کال دی جب بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو اسلام آباد پہنچ رہے تھے۔ لوکاشینکو روسی صدر کے قریبی اتحادی اور ان کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں ۔
پاکستان واضح طور پر ریجنل شفٹ کا حصہ ہے۔ اور اس شفٹ میں موجود امکانات سے اپنا جائز حصہ وصولنے کی طرف پیشرفت کر رہا ہے۔ پاکستانی ریاست اور لوگ اپنے مزاج میں ویسٹرن ہیں۔ نظام تعلیم ہو، حکومتی نظام ہو ، معاشی ماڈل ہو یا سیاسی، جمہوریت عدالتی نظام سب پر ویسٹرن چھاپ گہری ہے۔ پی ٹی آئی اپنی سیاسی کمزوری کو دور کرنے کے لیے اس ریجنل شفٹ کے خلاف کھڑے ہو کر امریکا یورپ کی حمایت حاصل کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:شنگھائی تعاون اجلاس، پاکستان کی سافٹ پاور کا اظہار
اس نئے ابھرتے اتحاد میں جتنے ملک شامل ہیں انڈیا کے علاوہ کہیں بھی جمہوریت والا شغل موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں جاری احتجاج دھرنوں کو بھی یہ پاکستان کا نیونارمل ہی سمجھتے ہیں۔ احتجاج کے دوران ہی ایس سی او کا سربراہ حکومت اجلاس اسلام آباد میں کامیابی سے منعقد ہو گیا۔ ریاستی پالیسی تنازعات سے دور رہنے، امریکا ویسٹ، روس چین کے ساتھ تعلقات میں بیلنس لانے اور معیشت پر فوکس رہنے کی ہی لگتی ہے۔
ہمارا دیسی مزاج سازش، غداری قسم کی باتیں جلدی قبول کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کی پوزیشن اگر پروویسٹ ہے تو یہ ایک اچھا بیلنسنگ اور کنیکٹنگ پوائنٹ بھی ہے ویسٹ سے۔ جو جماعتیں اور شخصیات اس ریجنل شفٹ کی طرف جاتے فائدہ ڈھونڈ رہی ہیں وہ بھی کمال کر رہے ہیں۔ اصل ضرورت ملک کے اندر سیاسی استحکام لانے اور تنازعات کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ہے۔ احتجاج دھرنے لڑائیاں اچھی نہیں ہیں، اختلاف بہت اچھا ہے کہ یہ دکھا کر ہر طرف سے زیادہ فیور لیے جا سکتے ہیں کہ ہم پر مہربانی کریں ہمیں اپنے مخالف سوچ رکھنے والوں کو بھی راضی رکھنا ہے۔