خیبرپختونخوا گورنر راج کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جو کافی دنوں سے جاری تھا اب اسلام آباد میں احتجاج کے دوران پیش آنے والے خونی واقعات کے بعد ان میں شدت آگئی ہے۔ وفاقی وزرا اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو گورنر راج کے نفاذ کو آئین اور جمہوریت کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
صوبے کی بڑی پارٹی اے این پی بھی گورنر راج کی سختی سے مخالفت کر رہی ہے البتہ صوبے کے گورنر فیصل کریم کنڈی جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے وہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال کا جواز پیش کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کی مخالفت نہیں کر رہے جبکہ دوسری طرف وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور ببانگ دہل وفاقی حکومت کو للکار رہے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دکھاؤ۔
مزید پڑھیں: وفاق گورنر راج لگانا چاہتا ہے تو لگائے، میں کیوں روکوں گا، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی
کسی بھی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے مگر 18ویں آئینی ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کردیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کے لیے گورنر راج نافذ کرے۔
آئین کی شق 232 کے مطابق اگر ملک کی سلامتی جنگ یا کسی اندرونی اور بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور اس کا سامنا صوبائی حکومت نہ کرسکتی ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کرکے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔ تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ متعلقہ اسمبلی اس کی سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے منظوری دے۔
اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر 10 دن کے اندر اس کی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔ گویا اس شق کے بعد خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانا قریباً مشکل ہے کیونکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت ہے جو اس کے خلاف ہے۔
مزید پڑھیں: ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دکھاؤ، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا وفاقی حکومت کو چیلنج
بلوچستان میں 2013 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے صوبائی حکومت ختم کرکے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت وہاں گورنر راج نافذ کیا تھا۔ اس کی وجہ کوئٹہ میں شیعہ مظاہرین کا دھرنا تھا جو انہوں نے 2 خودکش حملوں میں اپنے برادری کے 100 زائد افراد کی ہلاکت کے بعد دیا تھا۔
دوسری مرتبہ بھی پنجاب میں سابق صدر آصف علی زرداری نے 2009 میں بھی گورنر راج نافذ کیا تھا۔ انہوں نے وزیراعلیٰ کے عہدے سے شہباز شریف کی نااہلی کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے بچنے کے لیے گورنر راج نافذ کرتے ہوئے انتظامی اختیارات گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو سونپ دیے تھے۔ تاہم چند ہفتوں بعد ہی گورنر راج ختم ہوگیا تھا۔