سائیکالوجی کی ایک اصطلاح ہے جسے ILLUSARY TRUTH EFFECT کہتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا اثر ہے جو ہمیں جھوٹی خبریں ، جھوٹے فرمودات، توہمات اورجھوٹے ’حقائق‘ کو عین الحق ماننے پر مجبور کرتا ہے۔
یہ ایک مائنڈ گیم ہے اور اس کا اثر اتنا شدید ہے کہ کئی بار حقائق جاننے کےباوجود لوگ Illusary truth effect سے متاثر ہو کر جھوٹی معلومات کو تسلیم کر لیتے ہیں یا اپنی معلومات پر مشکوک ہو جاتے ہیں۔
یہ محض افسانہ نہیں بلکہ اب ایک ابھرتی ہوئی سائنسی حقیقت ہے اور مختلف تجربات کی بنیاد پر یہ بات پر ثابت ہو رہی ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں اسکے اثرات کو جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔ چند یونیورسٹیوں نے اس پر مختلف تجربات بھی کئے ہیں جس میں وانڈربلٹ میں ہونے والا تجربہ انتہائی دلچسپ ہے۔
تجربے کے شرکا کو اکیلے میں بٹھا کر ان سے کچھ سوالات کئے گئے جس کے انھوں نے اپنی معلومات کے مطابق جوابات دئے۔ مثال کے طور پر شرکا سے پوچھا گیا کے سب سے بڑا سمندر کونسا ہے؟ جس کا جواب بڑا آسان ہے کہ بحر الکاہل سب سے بڑا سمندر ہے۔ ان سوالوں کے بعد شرکا کو ساتھ بٹھا کر کچھ وڈیوز اور تصاویر دس دس منٹ کے وقفے سے دکھائی گئی جن میں کچھ باتیں بالکل سچ تھی اور کچھ باتیں بالکل غلط، مثال کے طور پر انہی وڈیوز اور آڈیوز کے ذریعے انہیں بتایا گیا کہ بحر اوقیانوس سب سے بڑا سمندر ہے۔ ایک گھنٹے کے بعد شرکا سے جب دوبارہ سوالات کئے گئے تو ان لوگوں نے بھی بحر اوقیانوس کو سب سے بڑا سمندر کہا جو پہلے جوابات میں بحرالکاہل کو سب سے بڑا سمندر کہہ چکے تھے۔
بات بظاہر تو بے ضرر سی دکھائی دیتی ہے مگر اس کا کمال یہ ہے کہ کوئی بھی غلط معلومات اگر عوام تک چار پانچ مختلف ذرائع جیسے تقاریر، رسالے، پمفلٹ یا اخباری خبر ،یامشہور افراد کے ذریعے پہنچائی جائے تو لوگ اس کی اصل تک جانے کی زحمت نہیں کریں گے اور جو معلومات ان کو مل رہی ہے وہ اسےمصدقہ مان لیں گے۔اس میں سب سے زیادہ یقین اس جھوٹی معلومات پر کیا جائے گا جو سچ کے انتہائی قریب یا انتہائی ممکن۔
ماضی میں اسی الیوسری ٹرتھ افیکٹ کو استعمال کر کے گوئبلز نے جرمن عوام پر ہٹلر کا سحر اور جرمن بالادستی کا خواب طاری کئے رکھا۔ نازی پارٹی کے عروج و مقبولیت اور شہرت کی ایک بڑی وجہ گوبلز کا دماغ تھا۔ابتدا میں جب گوبلز نے ہٹلر کی دو گھنٹے کی تقریر سنی اور اس کے روس اور یہودیوں سے متعلق عزائم(جن میں تب تک اتنی شدت نہیں آئی تھی) سنے تو وہ کافی پریشان ہو گیا۔ اسے لگا کہ یہ عزائم عوام قبول نہیں کرے گی اور نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا جائے گا۔
گوبلز نے خود لکھا ’ہٹلر کے عزائم اتنے جارحانہ ہیں کہ میں خود پر سے یقین کھوتا جا رہا ہوں‘۔ لیکن ہٹلر کی کتاب پڑھنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ بھائی جان کی بات میں دم ہے اور اس کے لئے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے طریقہ کار وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ اس نے اس مقصد کے لئے اس نے پمفلٹس لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور ہٹلر کا ذاتی پراپوگینڈسٹ بن گیا۔ گوبلز نے بطور پروپیگنڈاسٹ ہٹلر کو نہ صرف سیاسی بلکہ عوامی حمایت بھی دلوائی۔
بڑے سے بڑے سیاسی نظرئیے سے لے کر عام جرمن خواتین تک کو ہٹلر کی محبت کا اسیر بنایا گیا۔سطحی نعرے مقبول ہوئے اور سطحی سوچ رکھنے والے قومی مفکر کہلائے۔ پڑھے لکھے دماغوں کو ہٹلر کے نئے اور جدید جرمن ریاست کے تصور اور یہودی ڈاکٹرائن سے متعلق بتایا گیا۔
اس زمانے کے بڑے بڑے کاروباری افراد ہٹلر کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے۔ ہیوگو باس نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے نازی پارٹی کی وردیاں ڈیزائن کی، لفت ہانسا نے ہٹلر کے سفر کے لئے اپنے جہاز پیش کئے، فرڈیننڈ پورشا نے فاکسی گاڑیوں کی پروڈکشن شروع کروائی۔یہ پروپیگنڈاصرف چند مخصوص افراد تک یا شعبہ جات تک محدود نہیں تھا۔اس میں جرمنی کے ہر طبقے کو شامل کیا گیا۔
مثلاَ جرمن خواتین رسالوں میں یہ چھپنا شروع ہوا کہ ہٹلر شادی اس لئے نہیں کرتا کیونکہ وہ جرمنی کی مٹی سے شادی کر چکاہے۔ جرمن نوجوان لڑکیاں یہ سوچتی تھی کہ یہ آدمی جس سے چاہے شادی کر سکتاتھا مگرہٹلرکیسا عظیم لیڈر ہے کہ ہماری قوم کے غم میں خاندان، بیوی، بچوں سے محروم ہے۔
جرمن نوجوان ہٹلر کو فیوہرر یعنی باپ کہتے۔ یہ سب کمال اس الیوسری ٹرتھ افیکٹ کا تھا جو گوبلز کی اختراع تھا۔ اس مائینڈ گیم کو گوبلز سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ نہ صرف ہٹلر کی تقاریر لکھتا تھا بلکہ خود بھی ایک بہترین مقرر تھا۔ اپنے فن تقریر کے بارے میں کہتا تھا کہ اسے کبھی تقریر کرنی نہیں آتی تھی، گھنٹوں شیشے کے آگے کھڑا رہ کر پریکٹس کرتا اور مجمعے کو دیکھ کر کانپنے لگتا۔
اپنے پروپیگنڈا کو مستحکم کرنے کے لئے گوبلز نے تین چار تقریریں یاد کر رکھی تھی اور وہ ہر جگہ انہی کو دہراتا تھا کیونکہ پروپیگنڈا کی کامیابی اسکی بار بار اور مسلسل دہرائی میں ہے۔ نہ صرف جرمنی کے عوام بلکہ عالمی دنیا میں بھی کئی لیڈران اور تحریکیں ہٹلر سے متاثر ہوئی۔اخوان سے لے کر سبھاش چندر تک، گاندھی سے لے کر برطانیہ کے لیبر سربراہان تک سبھی ہٹلر کے معترف تھے۔
ہٹلر کے دور میں جو کام سالوں کی محنت سے ہوتا تھا۔ دور حاضر میں چند دنوں کا ہو گیا ہے۔ اب کے ذریعے معاشرے میں افراتفری اور غلط معلومات کا سیلاب ہے اور لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ہر معلومات کے لئے کتابیں کھول کر بیٹھیں اور ایک ایک جملے کی تصدیق کریں۔ یہ مذہبی انتہا پسندوں اور انارکی پھیلانے والوں کے لئے ایک سنہرا دور ہے جہاں ان کے لئے کام بہت ہی زیادہ آسان ہے۔
کسی بھی خبر کو چند سو فیس بک پیجز، یوٹیوبرز، ٹویٹس، ٹک ٹاک،وٹس ایپ پوسٹ، نیوز چینلز، فنکاروں وغیرہ کے ذریعے پھیلایا جا سکتا ہے۔اسی الیوسری ٹرتھ افیکٹ کی بدولت لوگوں کو اکسانا، معاشرے میں بے یقینی پھیلانا، سوشل پریشر بنانا جو پہلے صرف لاوٗڈ سپیکر والوں تک محدود تھا اب ایک ایسا کام ہو گیا ہے جو صرف چند لوگ ایک کمرے میں بیٹھے بیٹھے دنیا میں کہیں بھی کر سکتے ہیں۔ اب کردار کشی کے لئے جہاز سے تصویریں گرانے کی ضرورت نہیں صرف وڈیو لیک کر دینے سے کام چل جاتا ہے۔
کچھ مثبت پہلو بھی ہیں، جیسے آپ بطور حکمران اپنے ایسے ایسے بہبودی کارنامے زبان زد عام کر دیتے ہیں جن کا آپ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔لوگ الیوسری ٹرتھ افیکٹ میں اندھے ہو کر آپ کو اپنا ان داتا مان لیتے ہیں جبکہ حقیقتاَ آپ کے پاس انکے لئے سوائے تقریر کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
ہٹلر نے جرمن قوم کو ایک قوم بنانے کے لئے یہودیوں کو پرابلم بنا کر پیش کیا اور ان پر زمین تنگ کر کے ان کے خلاف نفرت کی ایک ایسی مہم چلائی جس نے جرمن قوم کو یہودیوں کے خلاف اکھٹا کر دیا۔ اب آپ کو لوگوں کو ’ایک قوم‘ بنانے کے لئے کسی حقیقی دشمن کی ضرورت نہیں۔
آپ یہ کام کسی فرضی دشمن کے خلاف بھی کر سکتے ہیں یا اصل پرابلم سے توجہ ہٹانے کے لئے کسی قومیت کو یا شخص کو مسئلے کی جڑ بنا کر پیش کر دیتے ہیں ۔ آپ کے چاہنے والے سماجی خدمت اور مقدس جنگ کے جذبے سے سرشار ان لوگوں پر زمین تنگ کر دیتے ہیں اور ان کی ذلت کو ایک اہم سماجی خدمت سمجھتے ہوئے خود کو حق کی خاطر لڑ مٹنے والا تصور کرتے ہیں۔ بھارت میں یہ کام اسی الیوسری ٹرتھ افیکٹ پر عمل کرتے ہوئے نریندر مودی صاحب نے اپنایا۔
چونکہ اس عمل میں کامیابی کا انحصارانتہائی آسان اور سادہ نعروں پر ہوتا ہے جس میں قومیت کا مذہبیت یا دونوں کا عنصر شامل ہو یا پھر ایسے جھوٹ پر ہوتا ہے جو حقیقت سے قریب ترین رہتے ہوئے کیا جائے۔ لہٰذا گوڈسے کو قومی ہیرو قرار دینے کی سکیم سے لے کر ہندو انتہا پسندوں کو ان کے من پسند قوانین دینے تک، مودی صاحب نے یقیناَ بڑی کامیابی سمیٹی ہے۔ اب بھارت میں انتہا پسند آزاد ہیں، بڑے بڑے جرائم کرنے والے بڑی باقاعدگی سے انتہاپسندانہ ریلیاں نکال کر لوگوں کے قومی ہیرو بننے کی کوشش میں ہیں۔اس لئے مودی صاحب کی سیفرون ٹائڈ مستقبل قریب میں ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
آپ کے ذہن میں یقینًا یہ سوال پیدا ہوگا کہ آخر ایسے لوگ بھی تو ہونگے جو اس پاگل پن کے سامنے مزاحمت کرتے ہونگے۔کوئی تو ہوتا ہوگا کہ جس پر یہ الیوسری ٹرتھ افیکٹ اثر نہیں کرتا ہوگا۔ جواب یہی ہے کہ ایسے لوگ ہیں، مگر تاریخ میں وہ گالیاں کھاتے رہےیا وہ جلا وطن ہوئے، یا قید میں رہے ہیں، یا قتل کردئیے گئے۔ اور جو ڈر گئے وہ خاموش ہو گئے یا لہر کے ساتھ مل گئے۔ آپ تاریخ میں کس طرف رہنا چاہتے ہیں، فیصلہ آپ کا ہوتاہے۔