ارشاد کاظمی نے، جو گلگت بلتستان کے ایک نابینا فرد ہیں، معذوری کو کبھی اپنی زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ وہ نہ صرف کامیاب زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اپنی جدوجہد اور حوصلے سے دیگر معذور افراد کے لیے مشعل راہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ اپنی بصارت سے محرومی کے باوجود، ارشاد نے ہنر اور تعلیم کی طاقت کو اپنایا اور ایک ایسا ادارہ قائم کیا جو معذور افراد کو مختلف ہنر سکھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ارشاد کاظمی کا ادارہ ان لوگوں کے لیے ایک پناہ گاہ بن چکا ہے جو اپنی معذوری کی وجہ سے سماجی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ یہاں آنے والے افراد کو نہ صرف ہنر سکھایا جاتا ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی بھی بحال کی جاتی ہے۔ یہ ادارہ اس بات کی مثال ہے کہ معذوری زندگی کا اختتام نہیں بلکہ ایک نیا آغاز ہو سکتی ہے، بشرطیکہ انسان حوصلہ اور عزم سے کام لے۔
ارشاد کی کامیابی میں ان کی بیوی کا بھی اہم کردار ہے، جو ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور ادارے کے انتظامات میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ دونوں مل کر ان افراد کے لیے امکانات کے نئے دروازے کھول رہے ہیں جو اکثر اپنی معذوری کے باعث محدود امکانات کا شکار ہوتے ہیں۔
ارشاد کاظمی کا سفر ان کے مضبوط ارادے، حوصلے اور محنت کا عکاس ہے۔ وہ ان ہزاروں لوگوں کے لیے ایک روشن مثال ہیں جو معذوری کو کمزوری سمجھتے ہیں۔
ان کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر انسان کے دل میں لگن ہو تو کوئی بھی رکاوٹ اس کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔