علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے، ریاست کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے، مولانا فضل الرحمان

پیر 9 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم مدارس کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں، مدارس کے حقوق کی یہ جنگ تمام مدارس اور علما کی ہے، کسی فرد واحد کی نہیں ہے، اجلاس بلا کر علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مدارس بل پر مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کیے جائیں، نواز شریف کی وزیراعظم کو ہدایت

پیر کو چارسدہ میں میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس کے ایک ایک طالبعلیم اور استاد کی جنگ لڑرہے ہیں، قرآنی علوم، فقہ کے علوم ہوں یا حدیث کے علوم ہم ان کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں

برصغیر میں انگریزوں نے اپنا نظام تعلیم دیا تو دین کے اکابرین نے مدارس قائم کیے تاکہ اپنے دینی علوم کا تحفظ کیا جا سکے، ہم آج بھی اپنے اس دینی ورثے کے تحفظ کی جنگ لڑرہے ہیں۔

انہوں نے کہ ہم کسی بھی لحاظ سے ریاست کے خلاف تصادم نہیں چاہتے ہیں، ہم مدارس کی رجسٹریشن چاہتے ہیں، اس کے لیے ہمیں رجسٹریشن سے دھکیلا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں:مدارس کا موجودہ نظام برقرار، مولانا فضل سے مذاکرات کیے جائیں، علما کا حکومت سے مطالبہ

2004 میں بھی قانون سازی ہوئی، 2019 میں ایک نیا نظام دینا چاہا، وہاں سے ایک معاہدہ ہوا، ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل قائم کیا گیا اور کہا گیا کہ 12 مراکز قائم ہوں گے جہاں مدارس کی رجسٹریشن ہو گی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم ) کی حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے مدارس رجسٹریشن پر اتفاق کیا، تمام جماعتوں اور حکومت کے اتفاق رائے کے ساتھ اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا، اس کی پہلی خواندگی پر کوئی اختلاف نہیں ہوا، یہ اتفاق رائے سے پاس ہوا۔

مولانا فضل الرحمان نے الزام عائد کیا کہ مدارس رجسٹریشن بل کی دوسری خواندگی میں اداروں نے مداخلت کر کے قانون سازی رکوائی۔

یہ بھی پڑھیں:مدارس بل کی منظوری کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی ڈیڈ لائن، مدارس بل ہے کیا؟

26 ویں ترمیم کا مرحلہ آیا تو ایک مہینہ اس پر بحث ہوتی رہی، ان مذاکرات میں 56 کلازز سے ہم نے انہیں 36 کلازز پر آمادہ کیا ، اس کے بعد ہم نے کہا کہ ہمارا ایک بل پہلے سے متفقہ طور پر پاس ہو چکا ہے، جس سے ایجنسیاں بھی واقف تھیں، ہمارے ادارے بھی واقف تھے، صدر آصف زرداری خود اس میں موجود تھے، میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف دونوں متفق تھے۔

انہوں نے کہا کہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو چکا ہے، دیگر بلوں پر دستخط ہو سکتے ہیں تو پھر مدارس کی رجسٹریشن کے بل پر کیوں نہیں دستخط کیے جارہے ہیں۔

اس ڈرافت کے اندر ہم نے مکمل طور پر مدارس کو کسی بھی نظام کے ساتھ منسلک ہونے کی مکمل آزادی دی ہے، مدارس کو آزادی ہے کہ وہ 1860 کے ایکٹ کے تحت مدارس کے ساتھ منسلک ہونا چاہیں یا وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہیں۔

مزید پڑھیں:مدارس بل پر دستخط نہ کرنا بدنیتی، اسلام آباد کی جانب مارچ کا فیصلہ کیا تو کوئی روک نہیں سکےگا، فضل الرحمان

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بل اتفاق رائے سے پاس ہو چکا ہے، اب اس میں کسی ترمیم یا اختلاف کی کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہی، صدر آصف علی زرداری نے 26 ویں آئینی ترمیم کے بل پر فوری دستخط کر دیے دیگر بلوں پر بھی دستخط کیے وہ مدارس رجسٹریشن کے بل پر دستخط کیوں نہیں کر رہے ہیں؟۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ اس وقت علما کو علما سے لڑانے کی سازش کی جارہی ہے، مدارس کے طلبا اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہیں، ہم پوچھتے ہیں ایسا کیوں کیا جا رہاہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج کی پریس کانفرنس میں سخت اعلان کرنے جا رہے تھے لیکن مولانا تقی عثمانی نے روک دیا کہ  انہوں نے 17 دسمبر کو تمام علما اور مدارس کا اجلاس بلا لیا ہے جس میں وہ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں مدارس بل پر حکومت کو دی گئی ڈیڈلائن ختم، جے یو آئی متحرک

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم قانون کی بات کر رہے ہیں، مدارس کو معاہدے ، ایکٹ اور ایک قانون سے وابستہ کر رہے ہیں، لیکن ہمیں سمجھایا جائے کہ اسے کیوں روکا جا رہا ہے۔ یہ ہمیں دباؤ میں لا کر اپنے ماتحت کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا قطعاً نہیں ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل جو بل پاس ہو چکا تھا اس پر ایجنسیاں بھی متفق تھیں، سب کچھ اتفاق رائے کے ساتھ کرنے کے بعد متنازع کیوں بنایا جارہا ہے، اب تو ہم جیت چکے ہیں، بل اتفاق رائے سے پاس ہو چکا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اب ہمیں حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں ہے، تجویز قبول کرنا تو دور کی بات ہم اسے ’چونٹی‘ کے ساتھ پکڑنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp