خود پسندی میں مبتلا نہ ہوتے تو افتخار چوہدری ایک بہترین ثابت جج ہوتے، ایڈوکیٹ علی احمد کرد

بدھ 11 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوتے تو سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری ایک بہترین جج ثابت ہوتے۔

سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف مرحوم کے دور میں چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک کو یاد کرتے ہوئے علی احمد کرد نے کہا کہ ہم نے اس وقت وہ تحریک انتہائی خلوص سے عدلیہ کی حرمت اور وقار کے لیے شروع کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وقت کے ڈکٹیٹر نے سپریم کورٹ کے جسٹس کو آرمی کیمپ میں بلا کر عملاً گرفتار کیا تھا جس پر اس وقت وکلا کی تمام تنظمیوں نے متوقع طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس شب خون کو ناکام بنایا جائے جس کے بعد ایک تحریک کا آغاز ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ’آئینی پیکج کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے‘ حامد خان نے وکلا تحریک کا اعلان کردیا

علی احمد کرد نے کہا کہ ہم نے 2 سال تک اس تحریک کو چلایا لیکن افسوس کی بات ہے کہ افتخار چودھری کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ یہ تحریک ان کی شخصیت کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہے جس کے بعد ان کے آمرانہ فیصلوں نے عدالت کو مفلوج کردیا اور ایسے اقدامات کیے جن سے عدلیہ کو نقصان پہنچا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس تحریک کی کامیابی سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اب عدلیہ مکمل طور پر با اختیار اور آزاد ہے جو عوام کے مفاد پر مبنی فیصلے کرے گی لیکن جب افتخار چودری نے عہدہ سنبھالا تو انہوں نے آمرانہ طرز اختیار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ اس دوران پی سی او پر حلف لینے والے 104 ججز کو گھر بھیجا گیا اور اپنی مرضی کے ججز لائے گئے جس کے بعد انہوں نے من مانے فیصلے کیے۔

علی احمد کرد نے کہا کہ عدلیہ بحالی تحریک کے باوجود لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا تھا اور اس تحریک کے چند ماہ بعد ہی میں نے مختلف فورمز پر یہ کہا کہ یہ تحریک تو کامیاب ہوئی ہے مگر کوئی تبدیلی نہیں آسکی اور بعد میں وقت نے یہ ثابت بھی کیا کیوں کہ چیف جسٹس کو نہ وکلا نے پسند کیا اور نہ ہی عوام نے۔

مزید پڑھیے: جوڈیشل کمیشن کا 6 دسمبر کا اجلاس مؤخر کیا جائے، جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط

انہوں نے کہا کہ دراصل جو جج میرٹ پر کسی عدالت میں بیٹھا ہو اور اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اس کرسی سے عوام کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کو کبھی نہیں مانتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عدالتیں لولی لنگڑی ہیں اور اگر ان میں تھوڑی بہت جان موجود ہے تو وہ صرف وکلا کی چیخ و پکار کی وجہ سے ہے لیکن اس مفلوج عدالت میں بھی جسٹس منصور علی شاہ سمیت کئی ایسے ججز ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کو مسترد کیا ہے جبکہ ججز نے ایجنسیوں کے ناموں پر مبنی خط بھی لکھا۔

’26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف جلد تحریک چلائیں گے‘

علی احمد کرد نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ماضی میں کئی مرتبہ عدالتی فیصلوں میں مداخلت کر چکی ہے لیکن اب ججز برملا اس کا اظہار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کسی ایک جج کو ڈرا دھمکا کر یا رشوت دے کر ان سے مرضی کے فیصلے کروالیتی تھی لیکن اب 26 ویں آئینی ترمیم لا کر اپنی مرضی کے ججز کو مسندوں پر بٹھایا جا رہا ہے اور جسٹس منصور علی شاہ جیسے ججز کو صرف نچلی سطح کے مقدمات تک محدود کر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: فل کورٹ اجلاس: مقدمات جلد نمٹانے کی جسٹس منصور علی شاہ کی تجویز منظور

انہوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو وکلا اور عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت جلد ہم ایسی تحریک کا آغاز کر رہے ہیں جو اس ترمیم  کو اٹھا کر پھینک دے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp