عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ٹکراؤ کی راہ پر چلنے والی تحریک انصاف پر شدید دباؤ رہا ہے کہ وہ تصادم کی سیاست ترک کرکے مذاکرات کی میز پر اپنے سیاسی مسائل حل کرنے پر زور دے۔ کیا اب پاکستان تحریک انصاف مذاکرات کے لیے تیار ہوگئی؟
عمران خان کے ساتھ خفیہ ڈیل ہو رہی ہے اور وہ جلد رہا ہوجائیں گے؟ 26 نومبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کے بعد ایک طرف یہ باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان آ جاتا ہے۔ وہ اپنی پارٹی سمیت ہر کسی کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ کسی صورت اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ پارٹی قیادت کی کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ حتمی فیصلہ ہمیشہ کی طرح عمران خان نے خود ہی کرنا ہے۔
عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بشریٰ بی بی کے سوا وہ کسی کے مشورے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ دھرنے کے دوران جب بشریٰ بی بی نے اعلان کیا کہ وہ ہر صورت ڈی چوک جائیں گی اور عمران خان کی رہائی کے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گی۔ اگرچہ بیرسٹر گوہر اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت سب رہنما بتا رہے تھے کہ عمران خان سنگجانی میں دھرنا دینے پر مان گئے ہیں۔ مگر عمران خان نے رات کو سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام دیا کہ بشریٰ بی بی نے ڈی چوک جا کر کچھ غلط نہیں کیا بلکہ ان کی ہدایات پر ہی عمل درآمد کیا۔
مزید پڑھیں: عمران خان پارٹی رہنماؤں پر عدم اعتماد کرچکے، مذاکرات کس سے کریں؟ خواجہ آصف
اس ساری صورت حال کے بعد تحریک انصاف کی تمام قیادت عجیب کیفیت کا شکار ہوگئی۔ خاص طور بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور جو دعویٰ کرتے رہے کہ ان کی بانی پی ٹی آئی سے بات ہوئی تھی اور وہ سنگجانی کے مقام پر دھرنا دینے پر تیار ہو گئے تھے۔
پچھلے دو چار روز تحریک انصاف کی یہی قیادت پھر سے متحرک ہوگئی کہ ان کی جماعت حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے۔ مگر حکومتی وزرا سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا واقعی تحریک انصاف کی قیادت کو مذاکرات کرنے کی اجازت مل چکی ہے۔ تحریک انصاف کی پیشکش کے بعد کچھ وزرا پوچھ رہے ہیں کہ کیوں مذاکرات کیے جائیں۔
ادھر پھر عمران خان نے اپنے ساتھیوں کے اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے پیغام دیا ہے کہ وہ سول نافرمانی پر زور دیں۔ تحریک انصاف نے شرائط رکھی ہیں کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنائے جائیں اور اگر یہ شرائط نا مانی گئیں تو سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کردیا جائے گا۔
26 مئی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ دھرنے کی ناکامی کے بعد کیا حکمت عملی اپنائیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان بھی ڈی چوک کے دھرنے کی ناکامی بعد خفت مٹانے کے لیے کیا گیا ہے اور انہیں پورا اعتماد ہے کہ دھرنے کی طرح یہ سول نافرمانی کی تحریک بھی کسی صورت کامیاب نہیں ہو گی۔ ان کا خیال ہے کہ 2014 میں بھی عوام نے سول نافرمانی کے اعلان کو سنجیدہ نہیں لیا تھا اور اب بھی اس کا انجام یہی ہوگا۔
مزید پڑھیں: حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے، حامد رضا خان
یہ پہلا موقع ہے کہ عمران خان سیاسی قیادت سے مذاکرات پر رضامند ہوئے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ وہ بے اختیار چور ڈاکوؤں سے بات چیت نہیں کریں گے۔ انہوں نے ہمیشہ زور دیا کہ وہ مذاکرات صرف طاقت ور حلقوں سے کریں گے۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انہیں کبھی کوئی مثبت اشارہ نہیں ملا۔ تاہم کسی بھی سطح پر بات چیت کی حتمی منظوری فوجی قیادت ہی دے گی جو عمران خان کو 9 مئی کے واقعات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہیں۔
تحریک نصاف کے مطالبات بانی کی رہائی، مینڈیٹ کی واپسی اور اپنے رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے خاتمے سے ہٹ کر اب 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیش پر آگئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ معاشی استحکام تبھی ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا۔ اس لیے وہ حکومت کی مجبوری بن چکے ہیں۔
سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان آتے ہی عمران خان کو سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے خلاف فرد جرم عائد کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ انہیں بھی ملٹری ٹرائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دونوں طرف سے اعصاب کی یہ جنگ عروج پر ہے۔ عمران خان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ اپنے حریفوں کو غلط ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو سمجھتے تھے کہ عمران خان جیل میں 4 دن نہیں نکال سکیں گے اور فوری طور پر کسی نہ کسی ڈیل پر تیار ہوجائیں گے تاکہ وہ جیل سے باہر آجائیں۔
مزید پڑھیں: رانا ثنا اللّٰہ کا تحریکِ انصاف سے مذاکرات پر بڑا اعلان
مگر فوجی قیادت کو بھی یقین ہے کہ قید و بند میں ایک سال پورا ہوتے ہی ساری زندگی آزاد پلے بوائے اور کرکٹ ہیرو کی پر تعیش زندگی گزارنے والے عمران خان جیل سے نکلنے کے لیے بے چین ہوجائیں گے۔ ان کے خیال میں شاید وہ لمحہ اب بہت قریب ہے۔