نامور عالم دین مولانا امین احسن اصلاحی 15 دسمبر 1997 کو 93 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ ان کے یوم وفات کی مناسبت سے یہ خصوصی مضمون پیش کیا جا رہا ہے جس میں ان کی علمی اور سیاسی زندگی کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ، کوئی حادثہ یا منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات کسی کی زندگی بدل دیتی ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے لکھا ہے کہ مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد صحافت میں قدم جما چکے تھے۔ صحافت بھی ایسی ویسی نہیں، اپنے عہد میں صف اول کی۔ وہ مسلم بر صغیر کے ممتاز اخبار ’مدینہ‘ بجنور کے ایڈیٹر تھے۔ وہ ایک اور بڑے اخبار ’سچ‘ کے مدیر بھی رہے چکے تھے۔ انہیں ایک بڑے مسلمان دانشور اور عالم دین مولانا عبد الماجد دریابادی کی رفاقت کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ مطلب یہ ہے کہ صحافت کے پیشے میں وہ نمایاں تھے اور ان کا مستقبل روشن تھا کہ ایک واقعہ رونما ہو گیا۔ ان کے جلیل القدر استاد مولانا حمید الدین فراہی نے ان سے سوال کیا:
’میاں! یوں ہی صحافت کرتے رہو گے یا مجھ سے قرآن بھی پڑھو گے؟‘
روایت ہے کہ ان کا یہ سننا تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے استاد کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور عرض کیا:
’میں حاضر ہو گیا، میرا سینہ قرآن کے نور سے منور کر دیجیے۔‘
استاد کے دل کی مراد بر آئی تھی۔ انہوں نے اس ہیرے کو در نایاب سے بدل دیا۔ کیا سبب تھا کہ یہ نوجوان اپنے وقت کے اس عظیم عالم کی نگاہوں میں سما گیا تھا؟ ضیا الدین انصاری نے فکر اصلاحی کے ترجمان جریدے ’تدبر‘ میں لکھا ہے کہ یہ 20 ویں صدی کے ابتدائی برسوں کا واقعہ ہے، چند برس کا ایک بچہ کسی بزرگ کے ساتھ برصغیر کی معروف دینی درس گاہ مدرسۃ الاصلاح العلوم سرائے میر میں پہنچا اور کسی موضوع پر تقریر کی۔ الفاظ اور جملے رٹوا کر ماں باپ اپنے بچوں سے تقریریں کرایا ہی کرتے ہیں لیکن اس بچے کی بات الگ تھی۔ امام حمید الدین فراہی اور دیگر اساتذہ نے دیکھا کہ بچے کی گفتگو میں یاداشت کی جادو گری نہیں بلکہ سنجیدگی کا وقار اور علم کی عظمت جھلکتی ہے۔ بس، یہ بچہ ان بزرگوں کی نگاہ میں آ گیا پھر وقت نے ثابت کیا کہ بزرگوں کا انتخاب غلط نہ تھا۔ امام حمید الدین فراہی نے قرآن حکیم کی تفسیر کے جس دبستاں کی بنیاد رکھی تھی، اس بچے نے اسے بام عروج پر پہنچا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: خان صاحب کا آخری کارڈ اور محمود شام کے انٹرویو
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کر کے اسے عامۃ الناس تک پہنچانے کا راستہ کھولا تھا۔ اس کے بعد اردو ترجمہ ہوا پھر علما نے تفسیر کے شعبے میں قابل قدر کام کیا لیکن ایک سوال باقی تھا۔ سوال یہ تھا کہ کیا قرآن حکیم کی ترتیب کا بھی کوئی مفہوم ہے یا نہیں اور اگر ہے تو قرآن فہمی کے باب میں اس کی اہمیت کیا ہے؟ امام حمید الدین فراہی کہا کرتے تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی پر اپنی آخری کتاب نازل فرمائے لیکن اس کی ترتیب کا کوئی مفہوم نہ ہو۔ انہوں نے نہ صرف یہ مفہوم دریافت کیا بلکہ چند سورتوں کی تفسیر لکھ کر اسے ثابت بھی کر دیا۔ کام کی ابتدا ہو چکی تھی لیکن اس کا پایہ تکمیل تک پہنچنا باقی تھا۔ اللہ نے یہ خدمت جس سے لینی تھی، اسے پہلے مدرسۃ الاصلاح میں بھیجا پھر استاد حمید الدین فراہی کے سپرد کر دیا۔
جماعت اسلامی میں شمولیت مولانا امین احسن اصلاحی کی زندگی کا اہم واقعہ ہے۔ ضیا الدین اصلاحی نے لکھا ہے کہ ابتدا میں وہ مولانا مودودی کے کچھ ایسے قائل نہیں تھے۔ وہ انہیں ایک شان دار صاحب قلم کے سوا کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ سیاسی اعتبار سے وہ ان دنوں مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کے زیر اثر تھے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب مولانا مودودی اپنے سلسلہ مضامین ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ میں کانگریس اور ان کے ہم خیال مسلمان قوم پرستوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ مولانا اصلاحی نے اپنے مضامین میں مولانا مودودی پر تنقید کی کیوں کہ ان کے نزدیک متحدہ (ہندوستانی) قومیت کا نظریہ تو ہر اعتبار سے باطل تھا لیکن مسلم لیگ بھی لوگوں کو دین کی طرف نہیں بلا رہی تھی ۔ ان کا مؤقف تھا کہ مولانا مودودی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو دین کی طرف بلائیں۔ مولانا اصلاحی کے قریبی ساتھی ڈاکٹر منصور الحمید نے لکھا ہے کہ یہ مولانا منظور نعمانی تھے جنہوں نے انہیں جماعت اسلامی میں شمولیت پر آمادہ کیا۔ مولانا نعمانی کا کہنا تھا کہ مولانا مودودی اب تو دین کی طرف بلا رہے ہیں لہٰذا آپ اور ان کے درمیان اختلاف ختم ہو گیا۔ اس لیے اب آپ کو اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لینی چاہیے۔ اگست 1941ء جماعت اسلامی کا تاسیسی اجلاس ہوا تو مولانا اصلاحی اس میں شریک نہ تھے لیکن اجلاس کے بعد جماعت کی طرف سے جاری کیے جانے والے پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اس نو زائیدہ جماعت میں شامل ہونے والی اہم شخصیات میں دیگر کے علاوہ مولانا امین احسن اصلاحی بھی شامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے اصلاحی صاحب سے پوچھا کہ جب تم اجلاس میں شریک ہی نہیں تھے تو تمہارا نام اخبارات کو کیسے جاری کر دیا گیا، بہتر ہے کہ تردید کر دو۔ اس موقع پر مولانا اصلاحی نے کہا اب نام آ ہی گیا ہے تو تردید کیوں کی جائے۔ مولانا منظور نعمانی نے محبت میں جب میرا نام دے دیا ہے تو تردید مناسب نہیں۔ وہاں کون سا کوئی غلط کام ہو گا، ہو گا تو دین ہی کا کام۔ یوں مولانا اصلاحی جماعت اسلامی کے ہو گئے۔
مزید پڑھیے: مطیع اللہ جان اور پی ٹی آئی
مولانا اصلاحی نے جماعت میں اپنی شمولیت کی تردید تو نہیں کی لیکن اس وقت تک ان کا شمار اس کے سرگرم لوگوں میں نہیں ہوتا تھا۔ وہ ان دنوں اپنی مادر علمی یعنی مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے سربراہ تھے اور اس حیثیت میں ان پر بڑی بھاری ذمے داریاں تھی جن میں وہ سر تا پا مصروف تھے۔ دوسری طرف مولانا مودودی اپنے علمی اور اصلاحی کام کے لیے ایک ایسے رفیق کار کی تلاش میں تھے جس کا علمی مرتبہ بلند ہو تا کہ دعوت دین کا کام جدید بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔ ان کی نگاہ میں مولانا اصلاحی اس مقصد کے لیے موزوں ترین تھے چناں چہ ان دونوں بزرگوں کے درمیان کافی عرصے تک خطوط کا تبادلہ ہوا یوں مولانا اصلاحی بالآخر قائل ہو گئے اور مدرسۃ الاصلاح کی ذمے داری کسی اور ساتھی کو منتقل کر کے پٹھان کوٹ پہنچ گئے جہاں جماعت اسلامی کا مرکز قائم کیا گیا تھا۔ یہ مولانا مودودی کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ ’تدبر‘ کے مدیر اعلیٰ حسان عارف نے مولانا جلیل احسن ندوی مرحوم کی یاداشتوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ مولانا اصلاحی کا خیر مقدم کرتے وقت مولانا مودودی کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے جھلملا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے رفقا کو اصلاحی صاحب کا خیر مقدم کرنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر بھیجا تو خود مسجد کی دہلیز پر سراپا انتظار بنے کھڑے رہے۔
مولانا اصلاحی کی جماعت اسلامی میں شمولیت اور اس سے علیحدگی کے موضوع پر ڈاکٹر منصور الحمید نے ان سے ایک انٹرویو کیا جو ’تدبر‘ کے شمارہ 60 ( اپریل 1998) میں شامل ہے۔ اصلاحی صاحب کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد کچھ مولانا مودودی کی رائے میں فرق آیا اور کچھ وہ اپنے ساتھیوں کے زیر اثر آ گئے یوں جماعت اسلامی اپنی راہ سے ہٹ گئی۔
مولانا اصلاحی کے مطابق مولانا مودودی سمجھتے تھے کہ جماعت اسلامی کی صورت میں ایک مضبوط حزب ( مولانا اصلاحی نے جتھے کے الفاظ استعمال کیے ہیں) قائم ہو گئی ہے جس کا کوئی نتیجہ سامنے آنا چاہیے ( یعنی اقتدار ملنا چاہیے)۔ اس انٹرویو میں دوسرا انکشاف مولانا اصلاحی نے یہ کیا ہے کہ مولانا مودودی کے بعض ساتھی انہیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ پاکستان کے عوام مسلم لیگ اور اس کی قیادت سے تنگ آ چکے ہیں اور اب وہ ان کی جگہ آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ مولانا اصلاحی نے اس انٹرویو میں ایک اور انکشاف بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مولانا مودودی کے بعض عقیدت مند انہیں اس بات پر قائل کرنے میں بھی کام یاب رہے کہ تحریکیں محض اصولوں اور نظریات کے زور پر نہیں چلتیں، ان کے لیے شخصیت بھی ضروری ہوتی ہے اور شخصیت اپنے آپ نہیں بن جاتی، بنانی پڑتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے جب یہ احساس ہوا کہ معاملہ بگڑ رہا ہے تو میں نے اس سلسلے میں مولانا مودودی سے گفتگو کی۔ انہوں نے میرے خدشات کی تردید کی لیکن معاملات عملاً خرابی کی طرف ہی بڑھتے رہے، یوں میرے راستے جماعت اسلامی سے جدا ہو گئے۔
مزید پڑھیں: ایک بدزبان محبوب، بال ٹھاکرے
’تدبر‘ کے اسی شمارے میں جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر میاں طفیل محمد صاحب کی ایک تحریر بھی شائع ہوئی ہے جس میں وہ مولانا اصلاحی کے اس تاثر کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہ مولانا مودودی کے ذہن میں آئی تھی اور نہ ان کے ساتھیوں کا خیال ہی ایسا تھا۔ اس وضاحت کے بعد ان 2 بزرگوں کے درمیان اختلاف کا معاملہ پھر الجھ جاتا ہے اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا اصلاحی کو غلط فہمی ہوئی یا میاں طفیل محمد ان 2 بڑوں کے اختلاف کو سمجھنے میں ناکام رہے؟ پھر حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اگرچہ آسان نہیں کیوں کہ فریقین اپنے اپنے مؤقف پر جمے ہوئے ہیں لیکن پاکستانی معاشرے کے بارے میں مولانا اصلاحی کے ایک تجزیے سے اس جانب کچھ راہ نمائی ملتی ہے۔
سلیم کیانی نے پاکستان کے بنیادی مسئلے کے بارے میں مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ سمجھتے تھے پاکستانی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجہ نفاق ہے۔ مولانا اصلاحی کے مطابق تاریخ میں کسی ایسی قوم کا سراغ نہیں ملتا جس کی قیادت نے بالاتفاق نفاق کو قومی حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا ہو، سوائے پاکستان کے۔ اس غیر معمولی تشخیص کے بعد وہ کہتے ہیں:
’پاکستان کو متحرک ( Dynamic) اور ترقی یافتہ اسلامی معاشرہ بنانے کے لیے اصلاح کی کوئی سطحی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔‘
سطحی کوشش کیا ہوتی ہے؟ مولا اصلاحی کی آرا کی روشنی میں سلیم کیانی نے لکھا ہے:
’جو لوگ اسلام کے احیا کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، انہیں اقتدار کی خواہش اور ووٹوں کی فکر سے بے نیاز ہو کر اور سیاسی جوڑ توڑ میں حصہ لیے بغیر عوام میں بے لوث کام کرنا چاہیے۔ انہیں عوام کی خدمت، ان کی تعلیم اور اسلام کے مطابق تعمیر افکار و کردار کے لیے عوام سے رابطہ کرنا چاہیے‘۔
لیکِن عملاً ہوا کیا؟ سلیم کیانی نے لکھا ہے:
‘ مولانا اصلاحی نے خود مشاہدہ کیا تھا کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سیاست میں کیسے اور کتنی جلدی کھو گئے حالانکہ انہوں نے ابتدا میں ایک مکمل ذہنی اور فکری انقلاب کے لیے ایک طویل المیعاد منصوبہ بنایا تھا۔ اس میں علم کی تمام شاخوں اور ہر شعبے میں تبدیلی کو حقیقی اسلامی انقلاب کی لازمی شرط قرار دیا گیا تھا۔‘
کسی اصلاحی اور دینی تحریک کے سیاسی عمل میں شریک ہو جانے کے بعد کس قسم کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے ان کی ایک اور تحریر راہنمائی کرتی ہے۔ ’اقامت دین کے لیے انبیا کا طریقہ کار‘ کے عنوان سے اپنے مقالے میں مولانا اصلاحی نے تبلیغ اور پروپیگنڈے کا فرق واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان دونوں الفاظ میں صرف زبان ہی کا فرق نہیں، روح اور جوہر کا بھی فرق ہے۔ تبلیغ کا مطلب ہے، اللہ کے دین کو پہنچا دینا۔ اس کے مقابلے میں پروپیگنڈے کا مطلب ہے تحریک کو کامیاب بنانا، چاہے اس کے لیے جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے ہی کام کیوں نہ لینا پڑے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سیاست کے حمام میں سب ہی گوئبلز کے اسوے کی پیروی کرتے ہیں کیوں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔
مولانا اصلاحی صاف گو اور راست باز شخصیت کے مالک تھے دل میں جو بات ہوتی، لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیتے۔ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی نے لکھا ہے کہ سیاست میں حصہ لینے کے سوال پر جماعت اسلامی میں بحران پیدا ہوا تو مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس موقع پر اصلاحی صاحب نے مولانا مودودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’ہم آپ کو بھاگنے نہیں دیں گے، یہ کانٹوں کی مالا ہے پھولوں کی سیج نہیں۔ اگر اس راہ پر چل نہیں سکتے تھے تو جماعت اسلامی کی بنیاد کیوں رکھی تھی؟ ‘
جنرل ضیا الحق ایک بار ان سے ملنے کے لیے آئے اور دیکھا کہ وہ ایک دیہی علاقے میں معمولی سے مکان میں رہتے ہیں تو پیش کش کی کہ وہ انہیں ان کے شایان شان بلڈنگ میں منتقل کرا دیتے ہیں جو ان ہی کی ملکیت ہو گی۔ انہوں نے بلاتامل یہ پیش کش مسترد کر دی۔ ان کی طرف سے درخواست کی گئی کہ وہ پی ٹی وی پر ہفتے میں ایک روز درس قرآن دے دیا کریں تو فرمایا کہ اسی ٹی وی پر جہاں درس کے بعد رقص و سرود شروع ہو جائے؟ مجھے اس سے معاف رکھا جائے۔ جسٹس افضل چیمہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بنے تو انہوں نے درخواست کی کہ وہ کونسل میں شمولیت کی دعوت قبول کرلیں لیکن تمام تر تعلق خاطر کے باوجود انہوں نے یہ درخواست رد کر دی۔
مزید پڑھیے: راگ درباری شروع ہوتا ہے
اپنے مزاج میں یوں ننگی تلوار ہونے کے باوجود انہیں جیسے ہی احساس ہوتا کہ وہ زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں تو فوراً معذرت بھی کر لیتے۔ جسٹس افضل چیمہ نے لکھا ہے کہ مولانا اصلاحی ایک بار اپنے کسی بیان میں سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی پر تند و تیز تنقید کی۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں تو گھر جا کر ان سے معذرت کی۔
وہ تصوف کے روایتی تصورات کے خلاف تھے لیکن اپنے مزاج میں صوفیا ہی کی طرح ہمیشہ راضی بہ رضا رہتے۔ ان کے بڑے صاحبزادے ابو صالح اصلاحی قاہرہ کے معروف طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے تو احباب تعزیت کے لیے ان کے ہاں پہنچے لیکن شدت غم کے باعث خاموش رہے۔ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کہہ نہیں پاتے تھے۔ یہ کیفیت دیکھ کر مولانا اصلاحی نے کہا:
’میرا قلب اور ذہن بالکل مطمئن ہے۔ اللہ کی مشیت کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ یہ جو کچھ ہوا ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔‘
ایسے تھے مولانا اصلاحی جنہوں نے زندگی بھر جو کام بھی کیا مکمل ذہنی آمادگی کے ساتھ کیا۔ وہ اسی اطمینان اور آسودگی کے ساتھ ایک روز اپنے رب کے حضور پہنچ گئے جہاں وہ یقیناً اپنی نیک نیتی، محنت اور جہدوجہد کے بہترین اجر سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔
(اس مضمون کی تیاری اور مواد کی فراہمی کے ضمن میں جناب حسان عارف مدیر اعلیٰ ‘ تدبر’ نے فراغ دلی کے ساتھ تعاون کیا جس پر راقم ان کا تہہ دل سے ممنون ہے)۔