خان صاحب کا آخری کارڈ اور محمود شام کے انٹرویو

اتوار 8 دسمبر 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے آخری کارڈ کھیلنے کی دھمکی دی تھی۔ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے محترمہ علیمہ خان نے کہا کہ نہیں معلوم خان صاحب کا آخری کارڈ کیا ہے؟ وہ  جس وقت یہ بات کہہ  رہی تھیں، عین اسی وقت ان کی جماعت کی صوبائی حکومت کی طرف سے پختون کارڈ کھیلا جا رہا تھا۔ لوگوں نے سوچا کہ اس جماعت نے اور تو سارے کارڈ کھیل کر دیکھ لیے ہیں، لے دے کر لسانی تعصبات کو ہوا دینا ہی باقی بچا تھا، اب یہ بھی کر دیکھے۔ ممکن ہے کہ یہی خان صاحب کا آخری کارڈ ہو۔

لوگ باگ ابھی لسانی تعصبات کے مضمرات پر غور کر ہی رہے تھے کہ علیمہ خان صاحبہ نے خان صاحب ہی کی طرف سے سول نا فرمانی کی تحریک چلانے کا بھی اعلان کر دیا۔ لوگوں سے کہا گیا کہ وہ حکومت کو نہ محصولات ادا کریں، نہ یوٹیلیٹی بل اور نہ دیگر واجبات۔ اسی نوعیت کی چند مزید دھمکیاں بھی سامنے آ چکی ہیں جن میں کچھ خاص صنعتوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔ یہ گویا ریاست سے بغاوت کا فیصلہ ہے۔

پی ٹی آئی کی دھمکیوں اور اس کے انداز سیاست پر مجھے جناب محمود شام یاد آگئے۔ پی ٹی آئی جس قسم کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ماضی میں بھی ہم اسی قسم کے حالات سے گزر چکے ہیں جن کے نتیجے میں ایک بار ملک دو لخت ہوا اور ایک بار ہمیں مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔ شام جی نے بھی قومی زندگی کے ان ہی ادوار کے بارے میں ایک دستاویز مرتب کردی ہے جو حال ہی میں ’رو برو‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ ان میں ایک واقعہ سقوط ڈھاکا کا ہے اور دوسرا 1977ء کے مارشل لا کا۔

یہ بھی پڑھیں: مطیع اللہ جان اور پی ٹی آئی

سقوط ڈھاکا اور سنہ 1977 ایک ہی دہائی کے واقعات ہیں اور ہماری قومی تاریخ کے 2 افسوس ناک سنگ میل ہیں۔ ماضی کے بارے میں یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا نہ ہوتا تو کمال ہو جاتا لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ماضی پر نگاہ ڈال کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کیا جائے اور ان کے نشیب و فراز کے حسن و قبح کا جائزہ لے کر مستقبل کے لیے درست راہ کا تعین کیا جائے۔ موجودہ حالات میں تو اس کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ یہ کام تاریخی تذکروں سے بھی لیا جا سکتا ہے اور اہم شخصیات کی یاداشتوں سے بھی۔ یہ جاننے اور سمجھنے کا ایک اور معتبر ذریعہ متعلقہ ادوار کی اہم شخصیات کا انداز فکر اور طرز کلام بھی ہے جو دیگر ذرائع سے زیادہ اہم ہے۔ ہمارے یہاں سیاست دانوں کے انٹرویوز کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جیسے جناب الطاف حسن قریشی کے انٹرویوز کا مجموعہ ’ملاقاتیں کیا کیا‘ لیکن موضوعاتی اعتبار سے ایسے کام کی کوئی مثال نہیں ملتی جیسا محمود شام تاریخ کے 2 اہم ترین  ادوار کی اہم شخصیات اور ان ادوار کے بارے میں اس کے مختلف کرداروں کا نقطہ نظر ایک ساتھ سامنے لائے ہیں۔ ’روبرو‘ وہ انٹرویو ہیں جو محمود شام صاحب نے تاریخ کے ان 2 نازک مواقع پر مشرقی اور مغربی پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات سے کیے۔

نہیں معلوم ایسا کیوں تھا لیکن تھا کہ ایک زمانے میں صحافی چند سوالات مرتب کر لیا کرتے تھے پھر جن جن راہ نماؤں سے وہ ملتے، ان کی گفتگو کو ’فلاں سے دس یا بیس سوال‘ وغیرہ جیسے عنوان کے تحت انہیں شائع کر دیا کرتے۔ صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے انٹرویو کے فن کے بارے میں میرا مؤقف یہ رہا ہے کہ جس شخصیت سے بھی انٹرویو کیا جائے اسے  پیش نظر رکھتے ہوئے سوال نامہ مرتب کیا جائے۔ ’فلاں سے دس یا بیس سوال‘ والا اسلوب میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ انٹرویو کرنے والے سوالات تیار کرنے کی زحمت سے بچنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ ایک ہی سوال سب کے لیے اکثر اوقات موزوں نہیں ہوتا لیکن شام جی کے انٹرویو پڑھتے ہوئے اس اسلوب کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آئی کہ بعض اوقات ایسے حالات ہوتے ہیں جن میں کچھ خاص سوالات اہمیت اختیار کر جاتے ہیں اور یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ کسی خاص معاملے میں مختلف انداز فکر رکھنے والی شخصیات بلکہ اسٹیک ہولڈرز کا نقطہ نظر  کیا ہے۔ یوں مختلف مکاتب فکر رکھنے والی شخصیات کے خیالات سامنے آنے کے بعد کسی مسئلے کی تشخیص آسان ہو جاتی ہے۔ سائینٹفک سروے کا طریقہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔

مزید پڑھیے: ایک بدزبان محبوب، بال ٹھاکرے

اس اسلوب کی اہمیت ہم ایک مثال کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں۔ محمود شام نے چین نواز عوامی نیشنل پارٹی کے مولانا عبد الحمید بھاشانی سے پاکستان کے مسئلہ نمبر ایک کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بھوک، قحط اور معاشی بدحالی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جب کہ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر پروفیسر غلام اعظم نے نظریاتی اور دستوری بحران کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کی بہت بڑی آواز مولوی فرید احمد نے پاکستان کی یک جہتی اور آئیڈیالوجی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ یوں معلوم ہوا کہ اس زمانے میں ایک ہی خطے کے لوگوں اور ان کی قیادت کے انداز فکر میں کتنا فرق اور کتنا بُعد تھا۔ یوں یہ بھی واضح ہوا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی جیسے المیے کے وقت بھی سیاست دانوں کی فکر کے دھارے مختلف تھے۔ اس فرق کی ایک وجہ اور بھی ہو سکتی ہے۔ یہ انٹرویو پڑھتے ہوئے بعض اوقات ایسا بھی لگا کہ انٹرویو دینے والے کے لیے کوئی سوال بالکل غیر متوقع تھا لہٰذا اس وقت جو بات اس کی سمجھ میں آئی، وہی اس نے کہہ دی۔ مطلب یہ کہ قومی زندگی کے کئی اہم اور نازک معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر بعض قائدین غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے یا انہیں ان مسائل کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ موجودہ حالات میں جس قسم کے سیاست دان ابھرے میں ہیں ان میں تو یہ کیفیت کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتی ہے۔ محمود شام نے تاریخ کے ان 2 نازک مواقع پر ملک کے 50 اہم سیاست دانوں سے یہ سوالات کیے جنہوں نے اپنے ذہنی پس منظر اور تجربات کی روشنی میں جواب دیے۔ یوں یہ کتاب ایک دستاویز کی صورت اختیار کر گئی جس کی روشنی میں قومی بحرانوں اور المیوں کی وجوہات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

اس کتاب ایک اور بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے صف اول کے تقریباً تمام قائدین کے انٹرویو شامل ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، میاں طفیل محمد، شیخ مجیب الرحمٰن، مولانا عبد الحمید خان بھاشانی، مولانا مفتی محمود، چودہری خلیق الزماں، نور الامین، جی ایم سید، خان عبد القیوم خان، اکبر بگٹی، اصغر خان، شیر باز مزاری اور بے نظیر بھٹو سمیت بہت سی اہم شخصیات شامل ہیں۔

مزید پڑھیے: راگ درباری شروع ہوتا ہے

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ محمود شام نے قومی تاریخ کے 2 اہم ادوار سے متعلق قومی سیاسی زندگی کے اہم کرداروں کا انداز فکر ایک جگہ جمع کر کے مؤرخین اور قومی زندگی کے بارے میں تحقیق کرنے والے طالب علموں کا کام  آسان کر دیا ہے جس پر وہ ہماری طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔ علامہ عبد الستار عاصم کے ادارے قلم فاؤنڈیشن نے یہ کتاب اہتمام سے شائع کر کے اس قومی خدمت میں ہاتھ بٹایا ہے۔ صحافیوں، سیاست دانوں اور طالب علموں سمیت اس کتاب کا مطالعہ پاکستان سے محبت کرنے والے ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جن میں ایک طرف ملک میں دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ دوسری طرف ایک سیاسی جماعت اور اس کی صوبائی حکومت کی طرف سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لسانی عصبیت کو ہوا دی جا رہی ہے اور تیسری طرف ریاست کے خلاف مسلسل اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں دفاعی تنصیبات پر حملے، قومی معیشت کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بند کوششوں کے علاوہ سول نافرمانی جیسے اعلانات بھی شامل ہیں۔ اسی قسم کی صورت حال ہوتی ہے جس میں وفاق کی یک جہتی کو صدمہ پہنچنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر بد امنی اور شکست و ریخت کے نتیجے میں آئینی نظام کے انہدام کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ تاریخ کے اس مرحلے پر کتاب کے مصنف کی ہمدردیاں کس جانب ہیں، اس کے باوجود یہ کتاب  ہمیں سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی ہے،  خاص طور پر موجودہ حالات سے تقابل کے بعد نہ صرف نتائج اخذ کرنے کا بلکہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں آئندہ کے لیے حکمت عملی کے تعین کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔

قومی زندگی کے لمحہ موجود کے تعلق سے تو یہ کتاب خاص طور پر اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ اچھا ہو کہ ہمارے دیگر بزرگ صحافی بھی تاریخ کے مختلف مراحل کو سمجھنے کے لیے اپنے انٹرویوز یا تجزیوں یا تحقیقی مضامین کے مجموعے اسی انداز میں شائع کریں تا کہ تاریخ و سیاست کا طالب علم نہ صرف ماضی کو سمجھ سکے بلکہ وہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپنے عہد کا جائزہ بھی لے سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp