قحط بنگال کے متعلق کچھ پڑھا اور بہت کچھ ان بزرگوں سے سنا، جو ان واقعات کے چشم دید شاہد تھے۔ بھوک اور افلاس کا وہ عالم تھا کہ، سڑکوں پر بھکاریوں کی قطاریں تھیں۔ بھوک کے مارے مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے ہر آتے جاتے کا دامن پکڑ کر تقریباً لٹک جاتے کہ کہیں سے کچھ مدد امداد مل جائے۔ تا کہ زندگی کی ڈور کو جوڑے رکھنے کے لیے چند نوالوں کا انتظام ہو سکے۔
کہا جاتا ہے کہ، بنگال کے طول و عرض سے قحط زدہ عوام شہروں میں امڈ آئے اور غلے کے گوداموں کے گرد ڈیرے ڈال لیے۔ کسمپرسی کے مارے، امید زدہ لوگ سڑکوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یوں مرنے لگے کہ لاشوں کو ٹھکانے لگانا ایک مسئلہ بن گیا۔
اسی طرح تقسیمِ ہند اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی المیے کا ذکر پڑھ اور سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کس طرح پیٹ کی بھوک تمام انسانی احساسات اور جبلتوں پر غالب آ جاتی ہے۔ روٹی کی طلب میں اخلاقیات اور آداب کہیں کھو کر رہ جاتے ہیں اور جسم و جاں کا ناطہ جوڑے رکھنے کی فکر باقی تمام ضرورتوں کو پس پشت لے جاتی ہے۔
مانا کہ وہ غلامی کا دور تھا۔بیرونی استعمار کے پیدا کردہ حالات غیر معمولی تھے کہ قریب ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ان کی زہر آلود یادیں باقی ہیں۔ ہمیں آزاد ہوئے دہائیاں گزر چکیں مگر ہماری تاریخ خود کو دہرائے ہی چلی جا رہی ہے۔
وہ ملک جہاں دنیا کا بہ ترین نہری نظام موجود ہے اور معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے، وہ اپنے باشندوں کے لیے خوراک پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ ملک کے کرتا دھرتا، اس نظام کی خرابیاں دور کرنے کے بجائے کبھی سستی روٹی تندور لگواتے ہیں، کہیں مفت لنگر لگا کر اپنا سیاسی قد بلند کرتے ہیں اور اب مفت آٹے کی تقسیم کا تماشا لگائے بیٹھے ہیں۔ چند کلو آٹے کی تھیلی مفت لینے کی خاطر بھوکوں مارے عوام میں وہ گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ اب تک لگ بھگ کئی درجن کے قریب لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بھوک سے بے حال انسان چھینا جھپٹی کرتے یوں باہم دست و گریبان ہیں کہ انہیں دیکھ کر بنگال کے قحط کے واقعات آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
ملک کے کرتا دھرتاؤں سے شکایت تو اپنی جگہ ہے ہی لیکن مجھے ان عوامل اور وجوہات پر بات کرنا ہے جن کے باعث عوام کی عزت نفس اس قدر ارزاں ہو گئی ہے۔
اس المیے کی جڑیں مجھے اپنے معاشرتی نظام اور اقدار میں دکھائی دیتی ہیں۔ تیسری دنیا کے اس ملک میں غربت اور مفلسی تو اپنی جگہ مسلمہ حقائق ہیں۔ لیکن اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدام کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔
ایک سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ہماری حکومتیں اپنے معاملات سوشلسٹ طرز پر چلانے کی تگ و دو کرتی رہی ہیں۔ ماضی میں غریبوں کے نام پر صنعتیں اس وعدے پر قومیائی گئیں کہ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نتیجتاً، ایک ایسی دوڑ شروع ہو گئی، جہاں ہر کوئی سرکاری ملازمت کا حصول چاہتا ہے، جہاں کام کیے بہ غیر ماہانہ تنخواہ باقاعدگی سے ملتی رہے۔ اور جو لوگ ان نوکریوں کے حصول کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے، ان کے لیے کسی بھی ہنر کی تربیت دے کر نجی شعبے میں روز گار کے حصول کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے۔
آنے والی حکومتیں ان بے منفعت اداروں کو چلائے رکھنے کی سعی میں بیرونی قرض لیتی رہیں، جس سے کوئی فائدہ تو کیا ہوتا، الٹا یہ ادارے سفید ہاتھی بن گئے جن کو پالنا ممکن نہیں۔
دوسرا پہلو، ہماری اجتماعی نفسیات ہے۔ جس میں ایک جمود زدہ خود ترسی کا عنصر ہمیشہ سے غالب رہا ہے۔ ہمارے ہاں غربت کو کچھ اس طرح سے فینٹسائز اور گلوریفائی کیا جاتا ہے کہ معاشرے کے نچلے طبقے اس کی محبت میں مبتلا ہیں۔ غربت کی آڑ انہیں مفت کھانے، لباس اور سہل زندگی کی امید دکھاتی ہے، جو سفید پوشوں کو نصیب نہیں ہے۔
آج آپ کسی چوک میں خیرات بانٹنے کھڑے ہو جائیں، ضرورت مند لوگ آپ کے کپڑے تک پھاڑ دیں گے، لیکن کسی مزدوری اور کام کے لیے قابل اعتماد اور ایمان دار ہنر مند تلاش کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔
تیسری وجہ، شارٹ کٹ کی عادت ہے۔ یہاں ہر کسی کو سب آسائشیں، سہولتیں اور مراعات آج، ابھی اور اسی وقت چاہییں۔ جن کے لیے وہ کوئی بھی درست اور جائز راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ہمارا ملک و معاشرہ اس قابل رحم حالت تک اچانک نہیں پہنچا۔ اس سب میں ہم سب کی برسوں کی محنت شامل ہے۔ لیکن امید پر دنیا قائم ہے۔ پستی کی اس انتہا کو دیکھنے کے بعد شاید کہیں کوئی امید کی کرن بھی نظر آ جائے۔ ہم نہیں تو ہماری آیندہ نسل ہی وہ سورج طلوع ہوتا دیکھے، جو چار سو پھیلی مایوسی کے اس اندھیرے کو مٹا دے