یہ پوڈ کاسٹ آخر اس قدر متنازعہ کیوں بنتے جارہے ہیں؟ صنف نازک کے لیے ہی کیوں ایسے جملے بولے جاتے ہیں جو قابل اعتراض ہوں؟ کیا زیادہ سے زیادہ ویوز، لائیکس یا شیئرنگ کے لیے مہمانوں سے جان بوجھ کر متنازعہ موضوع کو چھیڑا جاتا ہے؟ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے اور اس خیال کو تقویت حال ہی میں اس وقت ملی جب ماضی کے فلم ساز اور رائٹر ناصر ادیب نے ایک پوڈ کاسٹ میں شرکت کی جس میں ایک شہرہ آفاق اداکارہ کے متعلق انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کا تعلق بازار حسن سے تھا۔ ناصر ادیب کے مطابق متعلقہ اداکارہ کو انہوں نے فلم کے لیے مسترد کیا لیکن بعد میں وہی سپراسٹار بنیں۔ یہ انکشاف ایسے وقت میں کیا گیا جب اداکارہ، شوبزنس کی چمکتی دھمکتی دنیا کو خیر باد کہہ کر ایک نئی زندگی دیار غیر میں گزار رہی ہیں۔
ماضی کے ان دیکھے باب کا جب ناصر ادیب نے صفحہ پلٹا تو عمران عباس، مشی خان، صنم جنگ سمیت دیگر شخصیات نے ناصرادیب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک بیان وبال جان بننے لگا تو ناصر ادیب نے یوٹرن لیا۔ اداکارہ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ مخصوص علاقے سے تعلق جوڑنے پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ بات بغیر تحقیق کے کی جس پر وہ شرمسار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات بھی ناصر ادیب نے ایک پوڈ کاسٹ میں ہی کہی۔ یقینی طور پر یہ مختصر ساٹکڑا بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہی ہوگا لیکن ناصر ادیب کا سابقہ بیان آندھی طوفان کی طرح ہر طرف پھیل چکا تھا۔ پوڈ کاسٹ ہوسٹ جو تیر کمان سے نکلوانا چاہتے تھے وہ تو نکل چکا تھا۔ بس یہ سمجھیں کہ جس کو یہ تیر لگا تھا اس کی زخموں کی مرہم پٹی کی جارہی ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کہ کسی پوڈ کاسٹ میں کوئی مہمان آیا ہو یا تو اس کے لبوں سے کوئی نہ کوئی متنازعہ بات نکلی ہو یا پھر ہوسٹ نے کوئی ایسا شرارتی سوال کیا ہوجو مہمان کو کسی ایسی بات پر اکساتا ہے کہ وہ کوئی پھلجھڑی چھوڑے بغیر نہیں رہتے۔ اس کے نتیجے میں ان کے پورے پوڈ کاسٹ میں سے یہ متنازعہ گفتگو راتوں رات موضوع بحث بن جاتی ہے۔ پلٹ کر ذرا ماضی کی جانب دیکھیں تو کئی مثالیں ملیں گی جن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر تنازعے نے جنم لیا۔ ماڈل اور اداکارہ سنیتا مارشل سے جب ایک پوڈ کاسٹ میں ان کے مذہب کو لے کر ہوسٹ نے انتہائی ذاتی اور نامناسب سوالات کیے تواداکارہ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے یہ سب کچھ انہیں ناپسندیدہ لگ رہا۔
اس کے باوجود انہوں نے تحمل مزاجی کے ساتھ جواب دیے، ہوسٹ نے سنیتا مارشل سے دریافت کیا تھا کہ ان کا اسلام قبول کرنے کا کوئی ارادہ ہے؟ جس پر سنیتا مارشل نے واضح کیا تھا کہ ان کا ابھی ایسا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی ان پر شوہر اور سسرال والوں کا ایسا دباؤ ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ہراساں کرنے کا ہی عمل ہے۔ یہ انہی پوڈکاسٹ کی ہی کرامت تھی کہ فردوس جمال کے ذریعے سب کو معلوم ہوا کہ ماہرہ خان ’ہیروئن میٹریل‘ نہیں بلکہ صرف ایک اداکارہ ہی ہیں۔ یہی کچھ فردوس جمال نے ہمایوں سعید کے متعلق بھی کہا۔ جس کے بعد ایک نئے تنازعے کا در ایسا کھلا کہ اب تک ماہرہ خان سے فردوس جمال کے ان خیالات پر رائے طلب کی جاتی ہے۔
اب کون بھول سکتا ہے تجربہ کار سینئراداکار بہروز سبزواری کی لفظوں کی کارستانی جس نے ایک ہنگامہ برپا کردیا، بہروز سبزی واری نے پوڈ کاسٹ میں کہا ہے کہ پاکستان مرد حضرات کے اندر ریڈار لگے ہوتے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ بھی شوشا چھوڑا کہ موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی خواتین مناسب لباس نہیں پہنتیں، یقینی طور پر ان کے ان خیالات پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ کچھ دل جلوں نے یہ تک کہا کہ خواتین کے لباس پر تنقید کرنے سے پہلے وہ اپنے بیٹے کی شریک سفر کو بھی دیکھ لیا کریں جو آزاد خیالی کی تمام تر سرحدیں پارکرچکی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک اور پوڈ کاسٹ میں بہروز سبزواری نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کون کتنی مے نوشی کرتا ہے۔ اس کے بعد میں جب ان کلمات پر خوب لے دے ہوئی تو حسب روایت یہی راگ الاپا گیا کہ ان کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
یہ بھی حسین اتفاق ہی ہے کہ انہی بہروز سبزواری کے صاحب زادے کو ماڈل نتاشا حسین نے پوڈ کاسٹ میں اقربا پروری کا شاہکار قرار دیا۔ نتاشا حسین کا کہنا تھا کہ وہ شہروز کو اداکار نہیں سمجھتیں کیونکہ وہ اپنے والد کے تعلقات کی وجہ سے انڈسٹری میں آئے ہیں۔ نتاشا کے اس بیان کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس کے بعد انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈراما نگری کے دباؤ میں آکر ماڈل نتاشا نے شہروز سبزواری اور سوشل میڈیا صارفین سے معافی مانگ لی۔
یہ بات بھی تشویش ناک بات ہے، خواتین چاہے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہوں انہیں پیشہ ورانہ تنقید کے ساتھ ساتھ ذاتی حملوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے رنگ کو بھی موضوع گفتگو بنانے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔ ایسے ہی ایک پوڈ کاسٹ میں معمر رانا نے پریانکا چوپڑا کی رنگت کے حوالے سے عامیانہ گفتگو کی۔ بات سرحد پار تک پہنچی تو ایک بار پھر وہی گھسا پٹا بیان دیکھنے کوملا۔ معمر رانا نے دعویٰ کیا ہے کہ بالی وڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا سے متعلق ان کے بیان کو غلط پیش کیا گیا، انہوں نے ایسا نہیں کہا تھا، جیسے دکھایا گیا۔ ان کی باتوں کو ایڈٹ کرکے چلایا گیا، ان کے کہنے کا مطلب وہ نہیں تھا جو دکھایا گیا۔
ایک پوڈ کاسٹ میں ڈاکٹر عمر عادل نے پہلے مریم نواز پر کڑی تنقید کی، پھر انہوں نے اپنی توپوں کا رخ خواتین اینکرز کی جانب موڑتے ہوئے کہا کہ کسی کی مجال نہیں ہے جو آپ خاتون اینکر کو کچھ کہہ سکیں۔ پروڈیوسر خود چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس پوڈ کاسٹ پر پاکستان کی خواتین اور اینکرز کی جانب سے سخت ردعمل دیا گیا گیا ہے۔
خیر ان سب میں نمایاں تو پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل گبول رہے جنہوں نے ایک پوڈ کاسٹ میں زیادتی جیسے سنگین اور اہم مسئلے کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے خواتین کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اگر بچاؤ میں ناکام ہوجائیں تو صورتحال سے لطف اندوز ہوں۔ اس قابل گرفت بیان پر خود ان کی پارٹی قیادت نے نوٹس لیا اور انہیں شوکاز بھی تھمایا گیا۔ اسی طرح خواتین کی سماجی تنظیموں کی جانب سے جب احتجاج کا شور بلند ہوا تو نبیل گبول نے اپنے بیان پر معذرت کی۔ اسی طرح پیشہ ورانہ رقابت اور انتقام بھی انہی پوڈ کاسٹ کے ذریعے لیا جارہا ہے۔ جیسے ماضی میں سہیل احمد اور آفتاب اقبال کے درمیان پوڈ کاسٹ کی معرفت الزام تراشی کی جنگ چھڑی تھی۔
تنازعات میں پوڈکاسٹ کیوں گھرتے ہیں؟
چند وجوہات تو ہم نے آغاز میں ہی بیان کردیں، بیشتر پوڈ کاسٹ کے میزبان یا تو ٹک ٹاکرز ہیں یاپھر یو ٹیوبرز یا پھر کوئی پرینک اسٹار، جنہوں نے سوچا کہ ویوز کے ذریعے ڈالرز کمانے کے خاطر پوڈ کاسٹ کیے جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صحافتی پس منظر نہ ہونے کی بنا پر سوالات کی سمجھ بوجھ بھی کم ہی ہوتی ہے۔ المیہ یہی ہے کہ انہی پوڈ کاسٹ میزبانوں کے شوز متنازعہ بن رہے ہیں، لیکن انہیں اس سے غرض نہیں کہ کس مہمان سے کس حد تک سوال کرنا ہے بلکہ ان کی تمام تر توجہ تو اس بات پر ہوتی ہے کہ مہمان کی طرف جان بوجھ کر ایسا سوال اچھالا جائے کہ وہ جواب وہ دے جو وائرل ہوجائے۔
اب مہمان بعد میں وضاحت دینے کے بجائے دانش مندی کا اظہا ر کرتے ہوئے ’نوکمنٹس‘ بھی کرسکتا ہے لیکن نظر یہی آتا ہے کہ وہ بھی اس بات سے واقف ہیں کہ وائرل ہورہے ہیں تو ہونے دیں۔ بعد میں وضاحت دے دیں گے یا پھر بہت ہواتو ناصر ادیب کی طرح ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگ لیں گے۔ مطلب یہ سمجھیں کہ میزبان اور مہمان دونوں ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں اور پھر معذرت، معافی یا بیان کو توڑ مروڑ کا نعرہ لگا کر دامن جھاڑ لیتے ہیں۔