بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے، مشرف دور میں 2001 کے انتہائی مضبوط بلدیاتی نظام کے بعد جب 2008 کے عام انتخابات ہوئے تو سب سے پہلے اسی مضبوط بلدیاتی نظام کے پر کاٹے گئے۔ بلدیاتی نظام کوصوبوں کے سپرد کردیا گیا اور کئی برس تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت پر صوبوں نے انتہائی کمزوربلدیاتی نظام متعارف کرایا، جبکہ خیبر پختونخوا نے 2015 میں سب سے مضبوط بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات کرائے۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اس وقت مذکورہ بلدیاتی نظام کو بہترین اور کامیاب قرار دیا، جبکہ 2018 کےعام انتخابات میں کامیابی کا سہرا بھی اسی بلدیاتی نظام کو قرار دیا۔ بلدیاتی حکومتوں کے اس دور میں وعدے کے مطابق تو رقم جاری نہیں ہوئی، تاہم بلدیاتی حکومتوں کو 70ارب روپے سے زائد کے ترقیاتی فنڈز جاری کیے گئے، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
تاہم، اس بہترین اور مضبوط بلدیاتی نظام کے دشمن بھی پی ٹی آئی کے اپنے ہی لوگ بن گئے۔ اگست 2019 میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت مکمل ہوتے ہی قانون میں ترامیم اور قواعد و ضوابط پاس کرانے میں خلل ڈال کر صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کرائی اور جان بوجھ کر بلدیاتی انتخابات رکوائے۔ الیکشن کمیشن اورعدالت کیساتھ خط و کتابت میں 2سال سے زائد وقت گزارا گیا، جبکہ کچھ مدد کورونا وائرس نے کردی۔
بلآخر شدید دباﺅ کے تحت صوبائی حکومت نے 2 مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرا دیے۔ پہلا مرحلہ 19 دسمبر 2021، جبکہ دوسرا مرحلہ 31 مارچ 2022 کو منعقد ہوا۔ جو نظام 2015 میں لایا گیا، اسے یکسر تبدیل کرتے ہوئے اپریل 2019 میں بڑے پیمانے پر قانون میں تبدیلی کردی گئی اور بیشتر اختیارات واپس لے لیے گئے، کچھ بچے کچے اختیارات کے ساتھ جب 19 دسمبر 2021 کو پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو پی ٹی آئی کو صوبہ بھرمیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد حکومت نے باقی مانندہ اختیارات بھی واپس لے لیے، جبکہ دوسرے مرحلے میں پی ٹی آئی کو کامیابی ہوئی، لیکن اختیارات کی واپسی ممکن نہ ہوسکی۔
خیبر پختونخوا کی بلدیاتی حکومت کی مدت 4 سال ہے، جس میں تقریبا 3سال مکمل ہوگئے ہیں، ان 3سالوں کے دوران 28ہزار سے زائد بلدیاتی نمائندے اپنے دفاتر کے چکر ہی لگاتے رہے، جہاں چائے قہوے کا خرچ بھی بلدیاتی نمائندوں کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا رہا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد عوامی خدمات کے بجائے یہ بلدیاتی نمائندے احتجاج پر احتجاج کررہے ہیں اور ان کا مطالبہ صرف ایک ہے کہ پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات سے قبل قانون جس صورت میں تھا اسے بحال کیا جائے۔
سابق وزیراعلیٰ محمود خان کے دور میں موجودہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین گنڈاپور وزیر بلدیات تھے، جب بلدیاتی نمائندوں نے اپنا ایک سال مکمل ہونے پر دسمبر 2022 میں احتجاج کیا اور وزیراعلیٰ ہاﺅس کے باہر دھرنا شروع کرنے کی دھمکی دی تو اس وقت وزیربلدیات، وزیرخزانہ اوردیگرپرمشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے بلدیاتی نمائندوں کے مطالبات پورے کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرنی تھیں، لیکن ایک مہینے کے اندر یعنی جنوری 2023 کو صوبائی اسمبلی تحلیل کردی گئی۔
نگراں دور آیا اورپی ٹی آئی مخالف جماعتیں نگران دور کی حکومت میں شامل ہوگئیں، قانون میں دوبارہ ترمیم تو ممکن نہیں تھی، لیکن جو اختیارات ایگزیکٹوآرڈرکے تحت بلدیاتی نمائندوں سے چھینے گئے تھے وہ بھی واپس نہیں کیے گئے۔ نگران دور کے 13مہینے بھی بلدیاتی نمائندے احتجاج ہی کرتے رہے اور خدا خدا کرکے جب عام انتخابات ہوئے تب بھی یہ امید پیدا ہوئی کہ اب نئی پی ٹی آئی کی حکومت بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات منتقل کردے گی، لیکن اس بار بھی نتیجہ مختلف نہیں تھا۔
نگراں دور کی مسلم لیگ ن، جمعیت علماءاسلام، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی جس طرح اس بات پر متفق تھی کہ بلدیاتی نمائندوں کواختیارات نہیں دینا، اسی طرح محمود خان کے بعدعلی امین گنڈاپور کی پی ٹی آئی حکومت بھی اِس بات پر متفق ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات نہیں دینا۔
بلدیاتی حکومتیں اپنی مدت کا 75 فیصد یعنی تین چوتھائی وقت گزارچکے ہیں، یہ وقت عوامی خدمت میں نہیں بلکہ احتجاجی مظاہروں، احتجاجی اجلاسوں اور دھرنوں میں ہی گزرا ہے۔ اب ایک اور دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ اس سے پہلے ایک دھرنا اوراحتجاج علی امین گنڈاپورکی حکومت میں بھی دیا گیا تھا، جس پر کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، مگرپھر وہی ہوا جوماضی میں ہوتا رہا ہے۔ بلدیاتی نمائندے اڈیالہ بھی گئے اور اڈیالہ کے باہر بھی احتجاج کیا، لیکن اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان بھی ان کی مدد نہیں کرسکے۔
رواں برس کا تیسرا بڑا احتجاج اب پشاورمیں ہوگا، بلدیاتی نمائندے اس احتجاج کو فیصلہ کن قرار دے رہے ہیں، لیکن اس بار بھی کوئی زیادہ امید نہیں لگائی جاسکتی۔ احتجاج کیا جائیگا اور پھر شاید مذاکرات کے بعد پرامن طور پر یہ ختم کردیا جائے۔ البتہ 3سالوں سے سڑک پر پڑی اس جمہوریت کو اختیارات نہ دینا پی ٹی آئی کے لیے بدنما داغ رہے گا۔
اختیارات سے محروم ان بلدیاتی نمائندوں کو فنڈزسے بھی محروم رکھا گیا ہے، قومی فنانس کمیشن ایوارڈ کی طرز پرصوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ بھی ترتیب دیا گیا، لیکن اس صوبائی کمیشن میں بلدیاتی نمائندوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ قانون کے مطابق 5بلدیاتی نمائندے شامل ہوں گے، لیکن صوبائی حکومت نے اب تک ان کی شمولیت نہیں کی، جس کے باعث یہ کمیشن یک طرفہ ہے۔ اس میں صوبائی وزیربلدیات، مشیر خزانہ، سیکرٹری بلدیات اوردیگربیوروکریسی ممبران شامل ہیں، جو من چاہے طریقے سے فیصلہ کرتے ہیں۔
3سالوں میں صوبائی فنانس کمیشن کے تحت 110ارب روپے کے ترقیاتی فنڈزمختص کیے گئے ہیں، تاہم ابھی تک ایک پائی بھی جاری نہ کی جاسکی۔ موجودہ صوبائی حکومت نے صوبے کی 131 تحصیل حکومتوں میں من پسند 56تحصیل حکومتوں کو دسمبر کے پہلے ہفتے میں 3 ارب 66 کروڑ روپے جاری کردیے، جبکہ صوبے کی 4 ہزار 212 ویلج و نیبرہڈ کونسلوں اور 75 تحصیل حکومتوں کو نظر انداز کردیا۔ یہ رقم خلاف قانون جاری کی گئی ہے، جسے بلدیاتی نمائندوں نے عدالت میں چیلنج کردیا تو پھر صوبائی حکومت نے فوراً اِسے واپس کردیا۔
صوبائی حکومت کا یہ اقدام واضح کرتا ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کی مضبوطی ان کے ایجنڈے پر نہیں ہے، کیونکہ رقم صرف من پسند اور پی ٹی آئی کی جیتی تحصیل حکومتوں کو ہی جاری کرنی ہیں تو پھر اسے انصاف نہیں کہا جائے گا۔ اگر اسی طرز پروفاقی حکومت نے فنڈز کی تقسیم میں اپنوں کو نوازنا شروع کیا تو ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کو آئین یاد آجائے، لیکن بلدیاتی حکومتوں کو فنڈزکے اجرا میں نہ تو آئین کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی قانون کومدنظررکھا گیا، اسی لیے حکومت کو سُبکی کا سامنا کرتے ہوئے اسے واپس لینا پڑا۔