رواں سال کا آغاز ہی شکست سے ہوا جب آسٹریلیا نے آخری ٹیسٹ میں بھی پاکستان کوہرا کر 3میچز کی سیریز میں وائٹ واش کیا۔ یہ پاکستان کی بدترین کارکردگی تھی اور بطور کپتان شان مسعود کی قیادت پر بھی سوال اٹھنے لگے۔ آسٹریلیا سے شکست کی ہزیمت اٹھانے کے بعد شاہینوں کا امتحان نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی 20سیریز میں ہونا تھا۔ کیوی ہوم گراؤنڈ پر کھیلی جانے والی اس سیریز کے لیے حیران کن طو ر پر بابراعظم کو قیادت سے ہٹا کر یہ ذمہ داری شاہین شاہ آفریدی کو دی گئی۔ لیکن پھر بھی کہانی مختلف نہ ہوئی بلکہ پاکستان اس سیریز کو4ایک سے ہار بیٹھا۔ اور یہی شکست آگے چل کر شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی سے محرومی کا سبب بنی۔ شاہین شاہ کی جگہ ایک مرتبہ پھر وائٹ بال کرکٹ کاکپتان بابر اعظم کو بنادیا گیا۔ اسی عرصے میں ذکا اشرف کی جگہ کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری محسن نقوی نے سنبھالی۔
پاکستان سپر لیگ میں اسلام آباد کی جیت
پاکستان سپر لیگ کی شروعات ہوئی تو دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے دیکھنے کو ملے۔ فائنل میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور ملتان سلطانز ٹکرائے لیکن اسلام آباد کی ٹیم نے شاندارکھیل دکھا کر تیسری مرتبہ پی ایس ایل میں سرخرو ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ایس ایل کے آفیشل ترانے کو ایک طویل عرصے بعد علی ظفر نے گایا۔
کمزور کیوی ٹیم سے جیت کی جدوجہد
اس قومی ایونٹ کے بعد پاکستان کا امتحان ہوم سیریز میں ٹی 20میچز میں نیوزی لینڈ کے خلاف تھا۔ مہمان ٹیم میں کئی تجربہ کار کھلاڑی شامل نہیں تھے اور یہ سی کلاس ٹیم تھی جو پاکستان کا رخ کررہی تھی۔ ایک اندازہ تھا کہ پاکستانی ٹیم آسانی کے ساتھ زیر کرلے گی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ایک ناتجربہ کار اور کمزور ٹیم سے سیریز بچانا مشکل ہوگیا۔ اور ٹی 20کی یہ سیریز 2، 2 سے برابری کی بنیاد پر ختم ہوئی۔
آئرلینڈ سے معرکہ آرائی
بظاہر تو ایسا لگا کہ پاکستانی ٹیم اب مضبوط اور تگڑی ٹیموں سے مقابلے کی اہل نہیں، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ آئرلینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی ٹی 20سیریز کے پہلے ہی میچ میں پاکستان کو شکست ہوگئی۔ بہرحال اگلے میچز میں پاکستانی ٹیم جاگ گئی اور یہ سیریز 2 ایک سے جیت ہی گئی۔ اسی سیریز کے دوران پاکستانی ٹیم نے ایک میچ میں سب سے زیادہ 15چھکے مارنے کا ریکارڈ بھی بنایا۔ ان چھکوں میں فخر زمان کے 6، رضوان اور بابراعظم کے 4، 4 اور صائم ایوب کا ایک چھکا شامل تھا۔
ٹی 20ورلڈ کپ ایک ڈراؤنا خواب
ٹی 20ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کا مقابلہ برطانیہ سے ہوا، سیریز کے 2میچز بارش کی نذر ہوئے جبکہ اگلے 2میچز میں انگلش ٹیم نے آسانی کے ساتھ پاکستان کو ہار کا مزا چکھایا۔ ٹی 20 کا عالمی کپ پاکستانی ٹیم کے لیے خوفناک خواب ثابت ہوا۔ امریکا اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے اس ایونٹ میں میزبان امریکا کی نئی ٹیم کے خلاف عبرتناک شکست ہوئی جس نے پاکستان کی اگلے مرحلے میں جانے کی تمام تر امیدوں کو پہلا دھچکا پہنچایا۔ دوسرے میچ میں روایتی حریف بھارت کو کم تر اسکور119 پر آؤٹ کرنے کے باوجود پاکستان یہ میچ نہ جیت سکا اور یوں پاکستانی ٹیم سپر ایٹ میں جگہ نہ بناسکی۔ کینیڈا اور آئرلینڈ سے کامران ہو کر بھی پاکستان خالی ہاتھ وطن لوٹا۔ اس ناکامی پر کرکٹ بورڈ کے سربراہ محسن نقوی چراغ پا ہوگئے جنہوں نے دبنگ انداز میں اعلان کیا کہ ٹیم کو بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ اس خراب، ناقص کارکردگی کے باوجود پاکستان کے ہر کھلاڑی کو عالمی کپ میں شرکت کرنے پر لگ بھگ 76لاکھ روپے ملے۔ پاکستان کی آئی سی سی کی درجہ بندی میں 7ویں پوزیشن تھی اسی بنا پر پاکستان اگلے عالمی کپ کے کوالیفائر میچز سے بچ گیا۔
بنگلہ دیش کا وائٹ واش
بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان آئی تو شان مسعود نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ وہ اس مرتبہ میدان مار لیں گے۔ مگر یہ سارے دعوے اور اندازے غلط ثابت ہوئے۔ مردہ پچ پر مہمان بنگلہ دیش اسپنر بالرز کے جال میں پاکستانی ٹیم پھنس گئی۔ راولپنڈی کے اس ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو شکست فاش ہوئی۔ بنگلہ دیشی کمزور ٹیم نے پاکستان کو 10وکٹوں سے ہرایا۔ یہ پہلی بار تھا کہ پاکستانی ٹیم کو ہوم گراؤنڈ پر 10وکٹوں سے ہار ملی۔ عبرت ناک شکست کا یہ سلسلہ اگلے ٹیسٹ میں بھی رہا اور یوں بنگلہ دیش ٹیم نے پہلی بار ناصرف پاکستان کے خلاف سیریز جیتی بلکہ وائٹ واش بھی کیا۔ شان مسعود ایک مرتبہ پھر تنقید کے نرغے پر رہے اور ان سے کپتانی لینے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ لیکن آنے والے دنوں میں کپتانی سے الگ ہونے کا اعلان بابراعظم کی طرف سے آیا جنہوں نے کہہ دیا کہ وہ اب وائٹ بال کرکٹ کی کپتانی سے جدائی لے رہے ہیں۔
انگلینڈ کے خلاف غیر معمولی کارکردگی
بنگلہ دیش کے بعد انگلستان کی کرکٹ ٹیم پاکستان کی مہمان بنی، ملتان ٹیسٹ میں سلمان علی آغا، عبداللہ شفیق اور شان مسعود نے سینچریاں بنائیں۔ بظاہر یہ ٹیسٹ ڈرا کی طرف جارہا تھا لیکن انگلش بالرز نے انہونی کو ہونی کردیا۔ انگلش ٹیم نے پہلے 800سے زیادہ رنز اسکور بورڈ پر سجائے۔ یہ 21ویں صدی میں پہلی بار ہوا کہ کسی ٹیم نے اتنے زیادہ رنز بنائے۔ مہمان ٹیم نے یہ ٹیسٹ میچ ایک اننگ اور 47رنز سے جیتا۔ یہ بھی اپنی جگہ دلچسپی سے خالی نہیں تھی کہ کرکٹ کی 147 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی ٹیم نے پہلی اننگ میں 500سے زیادہ رنز کیے اور پھر اسے اننگ کی شکست ہوئی، شان مسعود مسلسل 6ٹیسٹ ہارنے والے پہلے کپتان بن گئے۔
اس ہار نے کرکٹ بورڈ میں ہلچل مچادی، انگلش کرکٹ ٹیم کے خلاف سیریز کے باقی میچز کے لیے آؤٹ آف فارم بابراعظم، نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی کی چھٹی کردی گئی۔ اگلے 2میچز میں وہ ہوا جو انگلش ٹیم کیا کسی کرکٹ پرستار نے بھی نہیں سوچا تھا۔ پاکستان نے یہ دونوں ٹیسٹ جیت کر سیریز میں کامیابی حاصل کی۔ اسپنر ساجد خان اور نعمان علی کی اسپن بالنگ نے انگلش بلے بازوں کو چکرا کر رکھ دیا۔ سیریز میں نعمان علی نے جہاں 20شکار کیے وہیں ساجد خان نے 19بلے بازوں کو ڈریسنگ روم کا راستہ دکھایا۔ ساجد خان نے 24سال بعد ملک میں انگلش کرکٹ ٹیم کے خلاف 5یا اس سے زیادہ وکٹیں لینے والے اسپنر بن گئے۔ شان مسعود آخر کار پہلا ٹیسٹ اور پھر سیریز جیتنے میں سرخرو ہوگئے۔ لگ بھگ ساڑھے 3سال بعد پاکستان نے اپنے ہوم گراؤنڈ میں ٹیسٹ سیریز میں کامیابی حاصل کی۔ اسی سیریز میں سب سے زیادہ رنز سعود شکیل نے 280رنز بنائے۔ اسی طرح محمد رضوان 2ہزار ٹیسٹ رنز بنانے والے پاکستان کے 5ویں وکٹ کیپر بنے۔ ان سے پہلے یہ کارنامہ بنانے والوں میں امتیاز احمد، معین خان، کامران اکمل اور سرفراز احمد شامل تھے۔ اسی سیریز کے دوران کامران غلام نے ٹیسٹ ڈیبو پر سینچری بنائی اور یہ اعزاز بنانے والے وہ پاکستان کے 13ویں کھلاڑی بن گئے۔
آسٹریلیا اور زمبابوے میں جیت اور پھر ہار
رواں سال نومبر میں پاکستان نے آسٹریلیا میں ٹی 20اور پھر ون ڈے کھیلنے کے لیے رخ کیا، اس بار ٹیم کی قیادت محمد رضوان کے کندھوں پر آئی۔ پہلے ایک روزہ میچ میں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کینگروز پر خوب دھاڑی، اور سیریز 2ایک سے جیت لی۔ یوں 22سال بعد آسٹریلیا کو پاکستان نے اس کے ہی ہوم گراؤنڈ پر ہرایا۔ حارث رؤف جنہوں نے اپنی تباہ کن بالنگ سے 10شکار کیے تھے وہ میچ کے اعلیٰ کھلاڑی کے علاوہ سیریز کے بہترین کھلاڑی بھی قرار دیے گئے۔ بہرحال ایک روزہ سیریز کے بعد پاکستانی ٹیم کے لیے ٹی 20سیریز تباہ کن ثابت ہوئی، اور پاکستان نے آسٹریلیا میں مسلسل 7ویں ٹی 20سیریز ہارنے کا صدمہ سہا اور سیریز کے تینوں میچز میں پاکستان کو ناکامی ہی ملی۔ آسٹریلیا سے پاکستان نے رخ کیا زمبابوے کا تو یہاں پہلے ایک روزہ میچ میں زمبابوے نے 80رنز سے ہرا کر خطرے کی گھنٹی بجادی۔ لیکن پاکستان کو اگلے 2میچز جیت کر سیریز میں سرخرو ہونے کا موقع ملا۔ یوں یہ دوسری ایک روزہ سیریز تھی جو پاکستان محمد رضوان کی قیادت میں جیتا، ٹی 20میں بھی پاکستان 2ایک سے کامیاب رہا۔
جنوبی افریقہ میں شاندار کھیل
جنوبی افریقہ سے ہونے والی ٹی 20سیریز میں پاکستان کو شکست کا زخم لگا جبکہ ایک روزہ میچز کی سیریز پاکستان نے شاندار انداز سے جیتی۔ اس سیریز کے ہیرو صائم ایوب کو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جنہوں نے 2سنچریاں اس سیریز میں بنائیں۔
اس تمام عرصے میں کچھ واقعات بھی ہوئے جیسے کوچ گیری کرسٹن اور جیسن گلیپسی کی کرکٹ ٹیم سے جدائی اور پھر عاقب جاوید کا سلیکٹر اور اس کے بعد کوچ بننا۔ محمد عامر اور عماد وسیم جو کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ وہ ٹی20ورلڈ کپ میں کھیلے لیکن ان کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ اب حال ہی میں پھر سے کرکٹ سے جدائی لے لی ہے۔ ان کے ساتھ ہی فاسٹ بالر محمد عرفان نے بھی کچھ ایسا ہی فیصلہ کیا۔ اسی طرح شاہین شاہ آفریدی نے تینوں فارمیٹس میں 100سے زیادہ وکٹیں لینے والے بالر کا اعزاز حاصل کرلیا اور اسی طرح رواں سال شعیب ملک نے ثانیہ مرز ا کو طلاق دے کر ثنا جاوید سے شادی کی۔
پاکستان کے نمایاں کارکردگی والے کھلاڑی
رواں سال تادم تحریر پاکستان نے 6ٹیسٹ کھیلے جس میں 2میں جیت جبکہ 4میں شکست ہوئی۔27ٹی 20میں سے 9جیتے اور 16میں ہارہوئی ایک میچ نامکمل رہا۔ ایک روزہ میچز میں پاکستان کی کارکردگی مثالی رہی اور وہ صرف 2ہارا اور 7میں سرخرو رہا۔ 3ملکوں آسٹریلیا، زمبابوے اور جنوبی افریقا کے خلاف ون ڈے سیریز بھی جیتی بلکہ جنوبی افریقا کو اس کے میدان پر وائٹ واش کا صدمہ دینے والی پہلی ٹیم بھی بنی۔ ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز محمد رضوان نے 509بنائے ان میں ایک سینچری اور 2نصف سینچریاں شامل ہیں۔ ٹیسٹ بالر میں ساجد خان صرف 3میچز میں 22شکار کرکے نمایاں رہے۔ صائم ایوب ایک روزہ میچز میں 515رنز بنا کر نمایاں ہیں۔ صائم کے ان رنز میں 3سینچریاں اور2نصف سینچریاں بھی ہیں۔ ایک روزہ کے نمایاں پاکستان بالرز میں شاہین شاہ آفریدی نے 15 بلے بازوں کو ڈریسنگ روم کا راستہ دکھایا۔ ٹی 20میچز میں بابراعظم 24میچز میں 738رنز کے ساتھ آگے رہے ان میں 6نصف سینچریاں بھی شامل ہیں۔ بالنگ کے شعبے میں شاہین شاہ آفریدی 36شکار کے ساتھ ہم وطن بالرز پر بازی لے گئے۔ ان کے بعد جس بالر کا نمبر آتا ہے وہ کوئی اور نہیں نوجوان عباس آفریدی ہیں جنہوں نے 30کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
چیمپئنز ٹرافی اور بھارت کی چالیں
فروری میں ہونے والے اس ایونٹ کے لیے بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا، وہی پرانا راگ الاپا کہ پاکستان میں نہیں کھیلنا اور اس کے میچز کسی نیو ٹرل جگہ پر ہوں، لیکن اس مرحلے پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بھی ڈٹ گئے۔ جنہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر بھارت پاکستان نہیں آئے گا تو پاکستان بھی اس کی سرزمین پر جا کر نہیں کھیلے گا۔ دونوں بورڈ ز کا یہ ڈیڈ لاک کئی دنوں تک برقرار رہا اور آخر کار اب یہ فیصلہ ہوا کہ پاکستانی ٹیم 2027تک بھارت میں ہونے والے کسی ایونٹ میں حصہ نہیں لے گی بلکہ یہ میچز کسی نیوٹرل میدان پر ہوں گے اور کچھ ایسی ہی صورتحال بھارت کے ساتھ بھی رہے گی۔ بھارت نے پورا زور لگایا کہ پاکستان اس کے یہاں آکر کھیلنے پر راضی ہوجائے لیکن محسن نقوی کے سامنے بھارت کی ایک نہ چلی۔
ارشد ندیم حقیقی معنوں میں سپر ہیرو
رواں سال پیرس اولمپکس کا دنگل سجا تو سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہ آسکا۔ پاکستانی دستے میں شامل 7کھلاڑی خالی ہاتھ ہی رہے، ان کے ہاتھ ترستے رہے کہ کوئی تمغہ مل جائے۔ بہرحال سب کی نگاہیں جیولین تھرو پھینکنے والے ارشد ندیم پر جمی ہوئی تھیں، اور پھر وہ دن بھی آگیا جب ارشد ندیم نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ ارشد نے سب سے زیادہ فاصلے پر نیزہ پھینک کرپیرس اولمپکس میں پاکستان کا پہلا اور اکلوتا طلائی تمغہ حاصل کیا۔ ارشد ندیم نے 92.97کی دوری پر اپنا نیزہ پھینک کر اولمپکس کی 18سالہ تاریخ کا ریکارڈ پاش پاش کیا تھا۔ لگ بھگ 40سال بعد پاکستان نے اولمپکس مقابلوں میں طلائی تمغہ بھی جیتا۔ بس پھر کیا تھا ارشد ندیم پر انعامات کی برسات ہوگئی۔ حکومت نے کروڑوں روپے انعام کی صورت میں دیے وہیں وطن واپسی پر ارشد ندیم کا ایسا تاریخی استقبال ہوا جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ اس زبردست کامیابی میں سب سے خوبصورت لمحات وہ تھے جب ارشد ندیم کے قریب ترین روایتی حریف بھارت کے نیرج چوپڑہ کی ہار پر ارشد ندیم کی والدہ نے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔ کچھ ایسا ہی نیرج چوپڑہ کی والدہ نے بھی کیا۔ جس سے یہی پیغام ملا کہ کھیل ایک دوسرے کوملاتا ہے، نفرتیں کم کرتا ہے اور پیار و محبت کا درس دیتا ہے۔
ہاکی میں پاکستان
ہاکی میں پاکستانی ٹیم کے لیے یہ سال کسی حد تک اطمینان بخش رہا۔ 21سا ل بعد پاکستانی ٹیم کے ہاتھ کوئی ٹائٹیل جیتنے کا موقع سلطان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں آیا۔ ہاکی ٹیم نے فائنل میں جگہ بنائی۔ میچ 2، 2 گول سے تو برابر ہوگیا اور نتیجہ پنالٹی شوٹ پر آیا جس میں پاکستان پر جاپانی ٹیم بازی لے گئی۔ بہرحال اس ہار کے باوجود قومی ٹیم نے پرستاروں کے دل جیت لیے۔ ایشین چیمپئینز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی لیکن چین سے شکست کھا بیٹھی۔
دیگرکھیل اور پاکستان کا یہ سال
حیدر سلطان نے روسی ویٹ لیفٹرکو ہرا کر برکس گیم میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پاکستانی روئیرز نے تھائی لینڈ انٹرنیشنل روئنگ مقابلوں میں 9طلائی تمغے حاصل کیے۔ ان روئیرز میں کرکٹر فیصل اقبال کی بیٹی حوریہ فیصل بھی شامل رہیں۔ پاکستان کے زاہد مغل نے ٹوکیو باڈی بلڈنگ ورلڈ کپ میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ انڈر19ایشیا کرکٹ کپ میں پاکستانی بلے باز شاہ زیب خان نے ایونٹ میں مسلسل 2سینچریاں بنائیں۔ بدقسمتی سے پاکستان فائنل نہ کھیل سکا بلکہ سیمی فائنل میں شکست کھا بیٹھا۔ اسی طرح بلائنڈ ٹی 20ورلڈ کپ پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں میں سجا۔ فائنل میں قومی ٹیم نے بنگلہ دیش کو ہرایا۔ کپتان نثار علی بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ انڈر19 ٹی 20 ایشیا ویمنزکپ میں سیکیورٹی گارڈ کی بیٹی شہر بانو نے پاکستان کی نمائندگی کی۔
ویمنز کرکٹ ٹیم کے لیے یہ سال
سال کے ابتدا میں ہی جویریہ خان نے کرکٹ سے جدائی لی۔ پھر عالیہ ریاض نے وقار یونس کے بھائی اور کمنٹیٹرعلی یونس سے شادی کرلی۔ ویسٹ انڈیز کی ویمنز کرکٹ ٹیم پاکستان کی مہمان بنی۔ سلیمہ امتیاز پہلی پاکستانی خاتون ایمپائر بنیں جنہیں آئی سی سی کے ایمپائر پینل میں شامل کیا گیا۔ پاکستانی ویمنز کرکٹ ٹیم کو پہلے ایک روزہ میچز کی سیریز میں شکست ہوئی تو پھر ٹی 20میچزکی سیریز بھی ناکامی پر ختم ہوئی۔ ویسٹ انڈیز نے ایک روزہ میچزسیریز میں کلین سویپ کیا جبکہ ٹی 20سیریز میں 4ایک سے کامیابی ملی۔ آل راؤنڈر ندا ڈار نے ایک روزہ میچز میں وکٹوں کی سینچری مکمل کی۔
اسی طرح انہوں نے اس سال ٹی 20میچز میں شرکت کرتے ہوئے 137شکار کیے۔ ویمنز کرکٹ ٹیم نے پہلے ایشیا کپ میں شرکت کی۔ سیمی فائنل تک رسائی لیکن یہاں سری لنکا نے چاروں خانے چت کردیا۔ ندا دار کے ہوتے ہوئے جب مسلسل ہار ملتی رہیں تو بورڈ نے قیادت کا طوق فاطمہ ثنا کے گلے میں پہنایا۔ اور انہیں ویمنز کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ جو اپنے پہلے امتحان جو کہ جنوبی افریقہ کے خلاف تھا اس کے ٹی20سیریز میں ناکام رہیں اور جنوبی افریقہ نے یہ سیریز 2ایک سے جیتی۔ ٹی 20کا ورلڈ کپ ہوا تو ویمنز کرکٹ ٹیم بھی مینز ٹیم کے نقش قدم پر چلی۔ سوائے سری لنکا کے کسی اور ٹیم سے کھیلتے ہوئے سرخرو ہی نہ ہوپائی۔