رچرڈ گرینل کو تو آپ جانتے ہیں، نہیں جانتے تو اب جان لیں گے، انہوں نے کمال کردیا ہے۔ ان سے شہ پا کر کچھ لوگوں نے امیدوں کے تاج محل تعمیر کیے ہیں اور کچھ پارسا بے نقاب ہوگئے ہیں۔ کیسے؟ کہانی کا سب سے دلچسپ حصہ یہی ہے، رچرڈ گرینل نے ایک تو عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا اور دوسرا انہیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت قرار دیا۔ یوں معلوم ہوا کہ خان صاحب اصل میں کیا ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب بھی کمال کے آدمی ہیں۔ جوبائیڈن پر تنقید کرکے انہوں نے مسلمانوں سے ووٹ لیے اور انتخاب جیتتے ہی اعلان کردیا کہ اسرائیل کی طرف جس نے میلی آنکھ سے دیکھا اس پر قیامت برپا کردی جائے گی۔ تو واضح ہوکہ یہ صاحب اسی ٹرمپ کے مشیر خاص اور نفس ناطقہ یعنی زبان ہیں۔ کسی زمانے میں وہ ان کی آنکھیں اور کان بھی ہوا کرتے تھے، یعنی ان کے انٹیلی جنس چیف تھے۔ ان صاحب نے بانی پی ٹی آئی کے بارے میں ’کلمہ خیر‘ کہہ کر بہت کچھ یاد دلا دیا ہے۔ ان میں سے کچھ ان یادوں کا تذکرہ ہوگا لیکن ایک بات ان یادوں سے بھی بڑھ کر ہے۔
رچرڈ گرینل صاحب کا جس روز بیان آیا، اتفاق یہ ہوا، اسی وقت میری نگاہ سوشل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم پر پڑی جہاں لکھا کسی لکھنے والے نے:
’ابھی ابھی اڈیالہ جاکر معافی مانگ لو نہیں تو اگلوں نے تمہارے ذاتی اثاثے بھی ضبط کر لینے ہیں اور ان کے ساتھ اور بہت کچھ بھی۔‘
سوشل میڈیا کو سنجیدہ لوگ زیادہ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے کہ مخدومی مجیب الرحمان شامی نے تو اسے آوارہ خیالی کا بیت الخلا قرار دے رکھا ہے یعنی جو جس کے جی میں آئے، اگل دے، لیکن یہ بات سوشل میڈیا سے بھی کہیں آگے کی ہے۔ ذلفی بخاری صاحب عمران خان کے صرف دیوانے نہیں مغربی دنیا میں ان کے رچرڈ گرینل بھی ہیں یعنی ان کے نمائندہ خصوصی ہیں، انہوں نے کھلے دل سے اس مطالبے کی تعریف کی ہے، شکریہ ادا کیا ہے اور تحدیث نعمت کے طور پر ان کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ بھی کیا ہے۔ اس کے بعد تو نہ چاہتے ہوئے بھی سوشل میڈیا کے بیت الخلا میں اُگلی اور انڈیلی جانے والی باتوں پر یقین آنے لگتا ہے۔
ذلفی بخاری صاحب نے رچرڈ گرینل کے بیان پر جس گرم جوشی کا اظہار کیا ہے، اس پر سوشل میڈیا واریئر کے بیان کی طرف توجہ ایک بار پھر مبذول ہوگئی ہے جس میں وہ فوری معافی کا مشورہ نہ ماننے کی صورت میں اثاثوں سمیت اور بہت کچھ کی ضبطی کی دھمکی دیتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’اور بہت کچھ‘ کیا ہے؟ اس کی کچھ تفصیل خود ان ہی ذات شریف یعنی رچرڈ گرینل صاحب نے بیان کردی ہے اور دوٹوک وضاحت بلاول بھٹو زرداری نے کی ہے۔ رچرڈ گرینل نے تو دم توڑتی ہوئی جوبائیڈن انتظامیہ پر کڑی تنقید کی اور کہاکہ یہ لوگ پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام پر کمزوری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہم لوگوں نے اس سلسلے میں تیاری کر رکھی ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی اقدامات کریں گے۔ اب آتے ہیں بلاول بھٹو زرداری کی طرف۔
بلاول بھٹو زرداری اپنی ماں پر گئے ہیں۔ شہید بے نظیر بھٹو کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ قومی یا سیاسی معاملات میں وہ جو مؤقف اختیار کرتیں، بڑی چابک دستی کے ساتھ اسے نعرہ بنا دیتیں۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں جلاوطنی کے خاتمے کے بعد وطن واپسی پر ایک تو لاہور میں ان کے فقید المثال خیر مقدم کی یادیں ہیں جو ہمارے سیاسی حافظے میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ یاد رہنے والی دوسری چیز ان کے بیانات ہیں جو نعرہ بن جاتے تھے۔ آج کی زبان میں اسے بیانیہ کہا جاتا ہے۔ وطن واپسی کے بعد 1977 کے مارشل لا کے نفاذ کا دن پیپلز پارٹی نے یوم مذمت کے طور پر منایا۔ اس موقع پر محترمہ نے کہا:
’پانچ مئی: یوم سیاہ، ضیا گیا۔‘
یہ نعرہ زباں زد عام ہوگیا اور 18 اگست تک ڈکٹیٹر کو پریشان کرتا رہا۔ یہ ایک نعرہ تو فوری طور پر ذہن میں آگیا، ان کی زبان سے نکلنے والے بہت سے الفاظ آج بھی سیاسی محاورے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں جیسے ثاقب نثار کی قبیل کے ججوں کے فیصلے سامنے آتے ہیں تو فوراً ایک لفظ ذہن میں آتا ہے: ’چمک‘۔ بے نظیر بھٹو کا دیا ہوا یہ یک لفظی تبصرہ ہماری سیاست میں دائمی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس معاملے میں بلاول بھی اپنی والدہ کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ صفت ان کی جینز میں شامل ہے یا کوشش کرکے انہوں نے پیدا کی ہے، یہ تو معلوم نہیں ہے لیکن جو بھی ہے بہت خوب ہے۔ محترمہ کے 17 ویں یوم شہادت کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول نے کہا:
’عمران تو بہانہ ہے، ہمارا میزائل پروگرام نشانہ ہے۔‘
بلاول بھٹو زرداری کی زبان سے نکلنے والے اس جملے میں بھی ان کی والدہ کی زبان سے نکلنے والے جملوں جیسی سادگی اور پرکاری ہے۔ یہ نہ صرف ٹھیک نشانے پر لگا ہے بلکہ آسانی سے زبان پر چڑھ جانے والا بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہاکہ وہ (یعنی امریکا) نہیں چاہتے کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی طاقت ہو۔
میزائل پروگرام ہو یا ایٹمی پروگرام، ان دو کے بارے میں بلاول حساسیت کا مظاہرہ کریں تو انہیں اس کا حق پہنچتا ہے۔ اس کا ایک جواز تو یہ ہے کہ ان دونوں پروگراموں کے ساتھ اپنے بزرگوں کی وجہ سے ان کا جذباتی رشتہ ہے۔ اس کی دوسری وجہ ملک کا دفاع ہے، بنیادی بات یہی ہے۔
حقیقت تو یہی ہے کہ میزائل پروگرام ہو یا ایٹمی پروگرام، یہ ہر دور میں نشانہ رہے ہیں۔ پاکستان کے چند اداروں پر حالیہ پابندیوں کا پس منظر بھی یہی ہے۔ شام کے حالیہ واقعات کے بعد خطرات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ رچرڈ گرینل کے بیانات سے اسی خطرے کی تصدیق ہوتی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ خود پی ٹی آئی کے دور میں یہ معاملہ شروع ہوگیا تھا۔ اس کے کئی شواہد موجود ہیں۔ 2014 میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے تعلق سے اسی وقت اطلاعات سامنے آگئی تھیں کہ اس دھرنے کے پیچھے اصل میں امریکا ہے جس کا مقصد سی پیک کو روکنا ہے۔ چینی صدر کے دورے کے التوا سے ان اطلاعات کی تصدیق ہوئی لیکن اس پر بات رکی نہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت بنتے ہی اس کے وزیروں نے کھلے عام سی پیک کے خلاف بیانات دے کر اور اس پر کام روک کر ملک دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد معیشت کو ارادی طور پر مضمحل کیا گیا جس کا مقصد ملک کو دیوالیہ قرار دے کر خانہ جنگی کا راستہ ہموار کرنا تھا۔ خانہ جنگی کی صورت میں اقوام متحدہ کی مداخلت ناگزیر ہو جاتی جو سب سے پہلے ایٹمی اثاثوں کو اپنی تحویل میں لیتی کہ ایک جنگ زدہ ملک میں ایٹمی اسلحہ غیر محفوظ ہے۔ عمران دور میں خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں جو طالبان لا کر آباد کیے گئے تھے، وہ بھی اسی منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔ اب رچرڈ گرینل نے ایک بار پھر یہی دھمکی دی ہے جب کہ امریکی حکومت نے پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اس کا مطلب ہے پاکستان کے دفاعی ایٹمی اور میزائل پروگرام کے خلاف پیش رفت جاری ہے۔ رچرڈ گرینل نے عمران خان کی رہائی کی بات کی تو ذلفی بخاری نے ان کا صرف شکریہ ادا نہیں کیا، پی ٹی آئی کا پورا سوشل میڈیا بریگیڈ حرکت میں آگیا لیکن پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی اور عملی کارروائی کی مذمت کی توفیق کسی کو نہ ہوئی۔
پی ٹی آئی مخالفین پر ملک دشمنی کے الزامات عائد کرتی ہے لیکن اس کے اپنے دامن میں کیا ہے؟ رچرڈ گرینل کے بیانات سے سب کچھ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو رجیم چینج کے عنوان سے امریکی مداخلت قرار دیا تھا۔ اس مداخلت کے شواہد تو آج تک دستیاب نہیں ہو سکے، لیکن رچرڈ گرینل جو کچھ کررہے ہیں، کیا یہ مداخلت نہیں؟ میاں جاوید لطیف نے تو صاف صاف بتا دیا ہے کہ دباؤ آرہا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی اس دوہری پالیسی کو کب تک چھپا کر رکھے گی؟