سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان میں اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں، گزشتہ روز 53 سینیئر وکلا کی جانب سے اپنے خلاف لکھے گئے خط کے جواب میں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا نے بھی ایک سخت بیان میں اسے قانونی برادری میں تقسیم کی کوشش قرار دیا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں محمد رؤف عطا کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے دفاع کی دو وجوہات ہیں، 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے اجتماعی ارادے سے منظور ہوئی جس سے عدلیہ کی مداخلت میں کمی اور اختیارات میں تقسیم کا اصول مستحکم ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت صدر سپریم کورٹ بار رؤف عطا کو مہنگی پڑگئی
26ویں آئینی ترمیم کی حمایت پر گزشتہ روز صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا کو سپریم کورٹ کے سینیئر وکلا سمیت 50 سے زائد ایسوسی ایشن کے ارکان کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو لکھے ایک کھلے خط میں سپریم کورٹ کے 53 سینیئر وکلا نے بار ایسوسی ایشن کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان کی سول سوسائٹی 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف تحریک میں ساتھ دے، وکلا
سینیئر وکلا منیر اے ملک، حامد خان ،علی احمد کرد، عابد زبیری،سلمان منصور اور عبداللہ کنگرانی سمیت مجموعی طور پر 53 وکلا کی جانب سے لکھے خط میں 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے میاں رؤف عطا کی مذکورہ ترمیم کی حمایت پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا طرح کے خطوط لکھنے کی سختی سے مذمت کرتے ہیں کیونکہ ان کے نقطہ نظر کو قانونی برادری پہلے ہی مسترد کر چکی ہے، انہیں قانونی برادری میں تقسیم پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے، مستقبل میں ایسا کرنے کی کسی بھی کوشش کا سخت جواب دیا جائے گا۔‘
مزید پڑھیں: جماعت اسلامی نے بھی 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کردیا
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مطابق آئینی بینچ پوری طرح اپنی اعلیٰ ترین صلاحیت کے ساتھ فعال ہے، 26ویں ترمیم سے متعلق کوئی بھی معاملہ اب خصوصی طور پر آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
’کسی کو بھی عدالت کو فل کورٹ بلانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے، سیاسی دباؤ کے تحت اس طرح کے کسی بھی اجلاس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی اور نہ ہی قانونی برادری اسے قبول کرے گی۔‘