سابق وزیراعظم تو تاحیات ہوتا ہے

پیر 17 اپریل 2023
author image

سرفراز راجہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میر ظفر اللہ جمالی وزارت عظمی سے الگ ہوئے تو ایک دن ہلکے پھلکے انداز میں صحافی نے پوچھا،جمالی صاحب سابق وزیر اعظم بن کر کیسا لگ رہا ہے بولے بابا،،وزیراعظم تو عارضی ہوتا ہے،سابق وزیر اعظم تو تاحیات ہوتا ہے ناں پاکستان کی تاریخ سابق وزرائے اعظم سے بھری پڑی ہے زیادہ پیچھے نہ جائیں صرف اسی صدی کی پہلی دو دہائیوں کی بات کریں۔

بیس سال میں ملک نے بارہ وزیراعظم دیکھ لئے،جن میں نو منتخب اور تین قائمقام وزرائے اعظم تھے،،ظفر اللہ جمالی اس صدی میں ملک کے پہلے وزیر اعظم بنے اور کل ملا کے پورے سترہ مہینے اس منصب پر فائز رہے،ان سے ایک نجی محفل میں صحافی نے وزیر اعظم بننے کی کہانی پوچھی تو بولے ایک دن کچھ لوگ آئے اوربولے آپ کو وزیر اعظم بنانا ہے میں نے پوچھا کیوں بابا بولے،آپ کا تعلق بلوچستان سے ہے اورہم چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم چھوٹے صوبے سے ہو میں نے کہا بسم اللہ صحافی نے پوچھا پھر مستعفی کیوں ہوئے ؟

ایک دن پھر وہی دوست آئے بولے آپ استعفی دے دیں میں نے پوچھا کیوں بابا بولے،اب کسی اور کو لانا ہے میں نے کہا بسم اللہ،،جمالی صاحب کو بھیج کر جسے لانا تھا وہ پرویز مشرف کے وزیر خزانہ شوکت عزیز تھے جنہیں اٹک سے ایک نشست خالی کرا کے انتخاب جتوایا گیا،شوکت عزیز کے لئے انتخابی مہم تک کسی اور نے چلائی۔

شوکت عزیز کو کچھ بڑے جلسوں کے لئے بلایا جاتا رہا، ایک بار اسی مہم کے دوران انہیں حلقے کے کچھ لوگوں نے گھڑ دوڑ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی شوکت عزیز نے انکار کردیا کہ یہ انکا مزاج ہی نہیں، تو ان کی مہم کے ذمہ داروں نے سمجھایا سر،ووٹ بینک اور ورلڈ بینک میں فرق ہے ووٹ بینک کے لئے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔

شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے میں صرف ڈیڑھ ماہ لگےجس میں انہیں پہلے رکن منتخب کرایا گیا اور پھر وزیر اعظم اسی لئے انہیں ” شارٹ کٹ ” عزیز بھی کہا جاتا رہا،اور ان کے الیکشن کے لئے ایک اور شخصِت کوڈیڑھ ماہ کا وزیر اعظم بن کر تاحیات سابق وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا۔

یہ تھے چوہدری شجاعت حسین ،جنہیں اس درمیانی مدت کی وزارت عظمی پر چوہدری صاحب کو “حلالہ” وزیر اعظم کا لقب بھی دیا گیا،یوسف رضا گیلانی اگلے منتخب وزیر اعظم بنے،ملکی تاریخ میں ایک مدت میں سب سے طویل عرصہ چار سال اور تین ماہ وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان رہنے میں تو کامیاب ہوئے لیکن مدت پوری نہ کرسکے،اورتوہین عدالت میں تیس سیکنڈ کی سزا نے انہیں فوری طور پر وزیر اعظم ہاوس سے اور پانچ سال کے لئے سیاست سے ہی باہر نکال دیا۔

باقی مدت کے لئے راجا پرویز اشرف نے پیپلز پارٹی حکومت کی سربراہی کی،اگلے انتخابات میں نواز شریف کو بھرپور عوامی اکثریت ملی لیکن وہ وزارت عظمی کے عہدے پر یوسف رضا گیلانی کا ریکارڈ نہ توڑ پائے اور ایک ایسے فیصلے کے تحت تاحیات سیاست سے نااہل کر دیئے گئے جس پرآج بھی اور شاید ہمیشہ سوالات اٹھتے رہیں گے۔

نواز شریف کی باقی مدت شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمی کی کرسی پر گزاری،گزشتہ عام انتخابات میں عمران خان وزیر اعظم بن گئے اورپہلے وزیر اعظم بنے جنہیں چند سال بعد سیاسی جماعتوں نے ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد لاکر ایک آئینی طریقے سے عہدے سے ہٹایا،اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو قائد ایوان بنایا۔

پاکستان میں رواں صدی میں یہ چوتھی پارلیمنٹ ہے جو اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہے،ان چار پارلیمان نے 9 قائد ایوان منتخب کئے،دو وزرائے اعظم کو عدالتی فیصلوں کے زریعے گھر بھیجا گیا،اور نہ صرف گھر بھیجا گیا بلکہ سیاست سے ہی نکال باہر کیا گیا،،صرف ایک وزیر اعظم کو پارلیمان نے نکالا لیکن پارلیمان کا یہ آئینی عمل ملک میں ایک بڑے آئینی بحران کا باعث بن گیا،اوریہ بھی حقیقت ہے کہ اس بحران کی بڑی وجہ بھی کچھ عدالتی فیصلے ہی بنے۔

ہمارے مقابلے میں پڑوسی ملک بھارت میں اسی عرصے میں صرف تین وزرائے بن سکے،پاکستان کے موجودہ مسائل کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام کو قرار دیا جاتا ہے،اور معاشی بحران کی وجہ بھی سیاسی غیر یقینی ہی بنتی ہے۔

آئین سے ضیا دور کے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کے خاتمے کے بعد پارلیمان تو اپنی مدت پوری کررہی ہیں لیکن حکومتیں بدستور مدت پوری کرنے کی جدوجہد میں لگی ہیں،اور اٹھاون ٹو بی جیسے قوانین کے خاتمے کے بعد پہلی بار اس بار دو اسمبلیوں کو مدت پوری نہ کرنے دی گئی جبکہ باقی تین کو بھی قبل از وقت فارغ کرنے کا دباو برقرار ہے،ہر “موجودہ “ وقت آنے پر “سابق “ ہوجاتا ہے لیکن موجودہ کو وقت سے پہلے سابق کرنے کی رسہ کشی ہی بحرانوں کی وجہ بنتی ہے یہی ہماری سیاسی تاریخ کا سبق ہے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp