پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں تیسری حکومت ہے لیکن اس حکومت میں شامل کسی ممبر کو اس بات کا قوی یقین نہیں ہے کہ وہ رات جب سو جائیگا تو کیا صبح جاگتے ہوئے بھی حکومت کا حصہ ہوگا یا پھر چھٹی ہوجائیگی؟ پرویز خٹک جب پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے تو ان کی حکومت میں شامل قومی وطن پارٹی کو کچھ ایسی ہی صورتحال نصیب ہوئی، پی ٹی آئی پھر اپنے ہی وزیر معدنیات ضیاءاللہ آفریدی کے خلاف ہوگئی اور احتساب کمیشن نے ان پر کرپشن الزامات پر کارروائی کی، گرفتاری ہوئی لیکن کچھ ثابت نہ ہوسکا۔
پرویز خٹک دور کے وزرا بھی اسی خوف میں مبتلا رہے کہ کیا پتہ کل کابینہ کا حصہ ہوں گے بھی یا پھر نہیں؟ شوکت یوسفزئی کو وزیر صحت بنایا پھر انہیں ہٹاکر شہرام ترکئی کو وزیر صحت بنا دیا شاہ فرمان نے بھی محکمے تبدیل کیے جبکہ پارٹی کے اندر کے فارورڈ بلاک کو بھی کنٹرول کرنے کے لیے وزارتیں کسی سے لی گئیں اور کسی کو دی گئیں۔ پرویز خٹک کو اسلام آباد دھرنے میں اپنی حکومت جانے کا بھی ڈر تھا اسی لیے اپوزیشن کی مدد سے انہوں نے اسمبلی تحلیل رکوانے کی بھی کامیاب کوشش کی تھی۔
محمود خان کا دور بھی کچھ مختلف نہیں تھا کابینہ میں بڑی تبدیلی کی گئی وزیر بلدیات شہرام ترکئی کو وزیر صحت بنایا اور اگلے ہی روز کابینہ سے فارغ کردیا۔ اسی طرح عاطف خان اور شکیل خان بھی کابینہ سے فارغ ہوگئے۔ ضیاءاللہ بنگش ابتدائی تعلیم سے آئی ٹی میں چلے گئے اکبر ایوب نے بھی کئی وزارتیں تبدیل کیں جبکہ کامران بنگش کو بھی تجربات کرائے گئے۔ ہشام انعام اللہ کو صحت سے سماجی بہبود بھیج کر واپسی کی راہ دکھا دی گئی ہر وزیر کو ہی خوف رہا کہ نہ جانے کب اس کی چھٹی ہوجائیگی ایک وقت میں 2، 2 وزیر اطلاعات بھی رکھے گئے۔
شوکت یوسفزئی بندوبستی اضلاع کو دیکھتے اور اجمل خان قبائل کی ترجمانی کرتے۔ علی امین گنڈاپور بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں محض 10ماہ کی حکومت میں کابینہ سے 3ممبران فارغ کردیے گئے ہیں جن میں شیر افضل مروت کے بھائی خالف لطیف، مالاکنڈ سے منتخب رکن اسمبلی شکیل احمد خان اور بشریٰ بی بی کی ترجمان مشال یوسفزئی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پشاور سے منتخب رکن اسمبلی سید قاسم علی شاہ کو صحت سے سماجی بہبود بھیج دیا گیا جبکہ فضل حکیم یوسفزئی کو جنگلات و ماحولیات سے لائیوسٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ کا وزیر بنا دیا گیا اب دوبارہ سے بازگشت سنائی دے رہی کہ کابینہ میں تبدیلیاں متوقع ہیں چند چہروں کے قلمدان تبدیل ہونے کا امکان ہے جبکہ کچھ کی چھٹی بھی ہوسکتی ہے۔
کابینہ ممبران کے اندر وزارت جانے کا خوف انہیں چین کی نیند سونے نہیں دے رہا کابینہ ممبران ببانگ دہل یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہیں کرسی جانے کا کوئی ڈر اور خوف نہیں لیکن بند کمروں میں یہ کوشش بھی جاری رکھتے ہیں کہ کہیں وزارت سچ مچ ہی نہ چلی جائے اس لیے ہر کسی کو خوش رکھنے کی کوشش میں مگن ہیں خیبر پختونخوا کابینہ میں جاری یہ تبادلے اور تعیناتیاں اتنی تواتر کیساتھ کی جاتی ہیں کہ بیشتر محکموں کے وزرا اپنے ہی محکمہ کو سمجھ نہیں پاتے۔ ایک جانب کچھ وزرا کو مکمل آزادی ہے اور وہ کئی برسوں سے ایک ہی وزارت کے حقدار ٹھہرتے ہیں تو دوسری جانب کئی ایسے بھی ہیں جو ہر بار نئی وزارت لیتے ہیں جس سے انہیں تجربہ تو مل رہا ہے لیکن محکمہ سے کام لینے کی صلاحیت ان کی سامنے نہیں آسکتی۔
ایک محکمہ کو سمجھنے کے لیے کسی بھی وزیر کو کم سے کم 8سے 10ماہ درکار ہوتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کسی بھی کارکردگی کو جانچنے کےلیے صرف 4سے 6ماہ کا وقت دیتی ہے اب وہ کارکردگی چاہے پارٹی کے فیصلہ سازوں کو خوش کرنا ہو یا پھر مقتدرہ کی خوشی، کابینہ ممبران کو بس اتنا ہی وقت ملتا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں گورننس کی ابتری کی بڑی وجہ وزرا کے قلمدان میں بار بار تبدیلی بھی ہے پی ٹی آئی کی 2013میں قائم ہونیوالی حکومت میں بیوروکریسی کا کردار مسلسل مضبوط ہوتا گیا پرویز خٹک کو ماضی کا تجربہ تھا انہوں نے اپنا اثر برقرار رکھا تاہم محمود خان مکمل طور پر بے بس رہے پارٹی رہنماﺅں نے جہاں سیاسی طور پر اپنا اثر قائم رکھا وہیں بیوروکریسی انتہائی مضبوط ہوگئی اور علی امین گنڈاپور کا دور بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
بیوروکریسی کی گرفت اس وقت مضبوط ہے کئی محکموں کے وزرا یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ان کے محکموں کے سیکرٹریز، ڈائریکٹر جنرل اور دیگر عملہ ان کے بجائے براہ راست وزیر اعلیٰ ہاﺅس رپورٹ کررہا ہے اور ان کی گرفت انتہائی کمزور ہے ایسے میں نام کیساتھ وزیر، مشیر اور معاون کا سابقہ ہی ان ممبران کابینہ کی کل کائینات ہے یہ وزرا، مشیر اور معاونین شکوہ کناں تو ہیں لیکن وزیر اعلیٰ کے سامنے بولنے کی ہمت کسی میں نہیں سوائے ”ایک صاحب “کے، جنہوں نے وزیر اعلیٰ ہاﺅس میں ہی شکوہ کیا کہ ان کے محکمہ میں جو ہورہا ہے اس کے ذمہ دار وہ ہرگز نہیں ہوں گے انہوں نے تمام تر ذمہ داری وزیر اعلیٰ اور ان کے ہمنوا پر ڈال دی اور وہاں موجود کئی ساتھیوں کے سامنے کہا کہ اس محکمہ میں ہونیوالے ہر اقدام سے وہ بری ہیں۔
کابینہ کے ممبران اس وقت تذبذب کا شکار ہیں ماضی میں کابینہ ممبران کو عمران خان کی حمایت درکار تھی لیکن اب کابینہ میں شامل ممبران بشریٰ بی بی کو بھی ناراض نہیں کرسکتے ، وزیر اعلیٰ اور ہمنوا کو بھی خوش رکھنا ہے، مقتدرہ کے نمائندوں سے بھی بناکررکھنی ہے جبکہ عمران خان تک رسائی رکھنے والے تمام رہنماﺅں کے ماتھے پر بھی شکن نہیں لانی۔ اتنے لوگوں کو خوش رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کسی نہ کسی وزیر ، مشیر اور معاون سے کوئی نہ کوئی بندہ شکایت کررہا ہے پی ٹی آئی کی سوشل میڈ یا اور کی بورڈ واریئرز کا دباﺅ الگ سے بنا ہوا ہے اسی لیے کابینہ کا ہر رکن یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ اس وقت صابن پر کھڑا ہے اور کسی بھی وقت پھسل سکتا ہے۔