ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے ملٹری کورٹ سے سزایافتہ مجرموں کو قید تنہائی میں رکھنے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو پیش کردی ہے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ مجرمان کو صبح ساڑھے 7 بجے ناشتے کے بعد لان میں چھوڑ دیا جاتا ہے، شام 5 بجے تک مجرمان باہر رہتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ لان کونسا ہے ڈیتھ سیل والا لان تو نہیں ہے، جس پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب بولے؛ نہیں سر یہ وہ والا لان نہیں جو آپ نے دیکھا ہوا ہے، جیل میں ٹک شاپ ہے کافی وغیرہ بھی پی سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میں خود بھی 14 روز جیل میں رہا ہوں، جسٹس جمال مندوخیل کا انکشاف
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق گھر سے مجرموں کو میٹرس بھی دیے گئے ہیں، جس پر وکیل فیصل صدیقی بولے؛ آپ کا مطلب ہے گھر والا ماحول ہے۔
اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ نے غلط بیانی کی تو ہم جیل اصلاحات کمیٹی سے بھی رپورٹ منگوا لیں گے، جس پر صوبائی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بولے؛ مجھے 30 سال پریکٹس کرتے ہوگئے، میں کیوں جھوٹ بولوں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وضاحت کی کہ وہ بھی خیبرپختونخوا میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہ چکی ہوں، ہم حکومت کے وکیل ہوتے ہیں ہمیں حکومت کو سپورٹ کرنا پڑتا ہے،
مزید پڑھیں:انصاف کی فراہمی میں تاخیر،درخواست پر سماعت سے قبل ہی درجنوں قیدی موت کا شکار
ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ بیرسٹر حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی نے عدالت کو بتایا کہ تمام ملزمان کو ہائی سیکیورٹی زون میں رکھا گیا ہے، ہمیں وکالت نامے پر دستخط کروانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔
جس پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کا موقف تھا کہ کوئی بھی شکایت ہو تو سپرنٹنڈنٹ جیل کو بتائیں، وکیل سلمان اکرم راجہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کو بتایا کہ بریگیڈیر جاوید اکبر کے وکالت نامے پر دستخط کی اجازت نہیں دی گئی۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ میں 99 مقدمات میں نامزد معذور ملزم کی درخواست ضمانت پر کارروائی
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ وکلا کو بھی ملاقات کی اجازت ہے، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ وکالت نامہ سے ویسے بھی کوئی منع نہیں کرتا، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جیل مینوئل کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔