معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی ، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر بڑھتی بے حیائی، نوجوانوں میں تیزی سے پھیلتے ہوئے منفی جنسی رویے، ایل جی بی ٹی، ریپ اور تشدد کے واقعات، پیڈوفیلیا اور ایسے ہی کئی اور گھناؤنے مسائل اس وقت بے حد عام ہو چکے ہیں۔
میرا نہیں خیال کہ کوئی دن ایسی کوئی خبر سنے یا پڑھے بنا گزرتا ہو۔ عورت، مرد، بچے، بوڑھے سب ہی ان حالات سے متاثر ہیں۔ کوئی یہ گند پھیلا رہا ہے اور کوئی اس کا شکار ہو رہا ہے۔ اور سب سے زیادہ شکار اس وقت عورتیں خصوصاً کم عمر بچیاں اور بچے ہو رہے ہیں۔ یہ رذائل انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر پورے معاشرے کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔
ان اخلاقی بیماریوں کے پیچھے جو وجوہات ہیں، ان میں بڑی وجہ تو موبائل اور سوشل میڈیا کا منفی استعمال ہے۔
ماں باپ اپنی جان چھڑوانے کے لیے بچوں کو موبائل فون تھما دیتے ہیں۔ جس سے ایک طرف تو بچوں کی ذہنی نشوونما پہ فرق پڑتا ہے دوسری طرف غیر معیاری کانٹینٹ بچوں کے ذہن پہ منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس سب سے صرف کم عمر بچے ہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پہ بڑھتی فحاشی، ڈیٹنگ ایپس، ورچول سیکس جیسی بھیانک حرکتیں اور یونیورسٹی کالج میں اوچھے فیشن اور نشوں کی لت نے نوجوان نسل کو بے راہ روی کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے۔
جہاں ایک طرف معاشرہ اس قدر اخلاقی تنزلی کا شکار ہوچکا ہے، دوسری طرف یہ بحث جاری ہے کہ خواتین کے ساتھ ریپ اور زیادتی کے واقعات کی وجہ ان کی بے پردگی ہے۔ یا یہی بے پردگی اس اخلاقی پستی اور مردوں کی فرسٹریشن اور ذہنی گندگی کا باعث ہے۔
اگر اسی بات کو درست مانا جائے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو خواتین پردہ دار ہیں کیا وہ اس شر سے بچی ہوئی ہیں؟ کیا مکمل پردہ یا حجاب ہی عورت کے تحفظ کی ضمانت ہے؟
میری ایک سہیلی ہے جو کہ پردے کی بے حد پابند ہے۔ میں اکثر اوقات اس سے پوچھا کرتی ہوں کہ کیا تمہیں وہ سب تجربہ کرنا پڑرہا ہے جو بے پردہ خواتین یا عام زبان میں بولڈ لڑکیوں کو فیس کرنا پڑتا ہے ۔ اور مجھے یہ جان کر کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی کہ کچھ کم سہی مگر وہ بھی کسی نہ کسی کی گندی نظروں یا اوچھی حرکتوں کا شکار ضرور ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ ایک خاص ماحول میں اس چیز کا نشانہ بنتی ہے۔
ہمارے ایک رشتہ دار اپنی بیٹی کو عبایا پہننے سے اسلیے منع کرتے ہیں کہ پردے والی لڑکیوں کو زیادہ گھورا دوسرے لفظوں میں تاڑا جاتا ہے بلکہ پورا سکین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح دیکھ ہی لیا جائے کہ پردے کے پیچھے کیا چھپا ہے۔
کسی اور کی بات کیا کی جائے میں نے خود مختلف مشاہدات کیے ہیں۔ اپنی یونیورسٹی کے زمانے میں عبایا پہنا کرتی تھی اور حجاب کیا کرتی تھی۔ جن چیزوں کا سامنا میں نے جینز شرٹ پہن کے کیا وہی میں نے عبایا میں بھی کیا۔ بلکہ میں نے یہ بھی نوٹس کیا ہے کہ بولڈ لڑکیوں سے مرد زیادہ گھبراتے ہیں کہ یہ بھرپور جواب دے گی جب کہ پردہ دار خاتون کو عموماً کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور چیز ہماری باڈی لینگویج اور ٹون ہے جو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کا جاندار اور مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔
یہاں میں نے پردے کے معاملے خاص طور پر سوال اسلیے اٹھایا ہے کہ معاشرے میں اگر عورت کے ساتھ کوئی زیادتی، ہراسمنٹ یا کسی بھی قسم کے واقعات ہو رہے ہوتے ہیں تو پہلا مدعا یہی اٹھایا جاتا ہے کہ لڑکی پردہ دار خاتون یا لڑکی تھی یا کس قسم کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ یہ باتیں کرنیوالے عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں جو خود ذہنی پستی کا شکار ہوتے ہیں کہ متاثر ہونے والے کو ہی مجرم ثابت کرتے ہیں اور اپنی سوچ کو جسٹی فائی کرتے ہیں۔
بالفرض اگر یہ زیادتی کے واقعات بے پردگی کے باعث ہو رہے ہیں تو یہ کمسن بچے بچیاں اس درندگی کا شکار کیونکر بن رہے ہیں یہاں تک کہ نوزائیدہ بچے بھی۔ اب تو جنس کی بھی تمیز نہیں بچی، اور رشتوں کا تقدس تک پامال کیا جا رہا ہے۔ ہر عمر، ہر قسم ، ہر رنگ، ہر لباس میں کبھی بھی کوئی بھی کسی کی بھی ہوس کا نشانہ بن سکتا ہے۔
یہ سوال یوں تو مختلف تناظر میں بیسیوں بار ہی اٹھائے گئے ہیں مگر ریپ اور زیادتی کے بڑھتے واقعات اور عورت مارچ اور فیمینزم کی تازہ لہرکے بعد سے خصوصاً یہ بحث ہر طرف ہی شروع ہو چکی ہے۔ لیکن یہاں میں نہ تو فیمنزم کے چشمے سے بات کر رہی ہوں نا ہی کسی مذہبی حوالے سے، بلکہ یہاں بنیادی طور پہ ان وجوہات پہ روشنی ڈالنا چاہتی ہوں جن پہ اب تک کوئی خاص غور نہیں کیا گیا۔
یہ سچ ہے کہ عریانی، نشوں کا بڑھتا رجحان، وائرل سوشل میڈیا ٹرینڈز خاص طور پر ٹک ٹاکرزکی واہیات جنسی حرکات معاشرے میں جنسی سنسنی پیدا کررہی ہیں۔ اور اس اخلاقی پسماندگی کا تعلق معاشرے کی کنڈیشنگ سے ہے اور معاشرہ وہ جس کی تربیت ہی نہیں ہوئی۔ بری صحبت اور برے ٹرینڈز سوچ پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ نوجوان نسل کی سوچ کا معیار اس قدر پست ہوچکا ہے کہ ٹک ٹاکرز اور وی لاگرز سے انسپائریشن لی جاتی ہے۔ کتاب، ادب، مذہب اور اپنی اصل پہچان سے دوری اب یہ سوچ بنا رہی ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اس اخلاقی پستی کی وجہ بے پردگی نہیں بلکہ ذہنی غلاظت، جہالت، ناپختگی، تعلیم و تربیت کی کمی اور ماحول میں بڑھتی ہوئی فرسٹریشن ہے۔ اور اگر اس سے زیادہ گہرائی میں دیکھا جائے تو پھر یہ ہوس کا کھیل ہے جو کہ ذہن و روح کو پستی میں دھکیل چکا ہے۔ انسان اپنی حد سے گر کر درندے بن چکے ہیں اور یہ درندے اپنی ہوس کی تکمیل میں صحیح غلط کی تمیز بھول چکے ہوتے ہیں۔ یہ عوامل آہستہ آہستہ معاشرے کی جڑوں میں بیٹھتے جا رہے ہیں۔
چند گنے چنے لوگوں کے علاوہ کوئی اس بات پہ غور نہیں کرتا کہ کیا افراد کی تربیت صحیح طور پر کی جا رہی ہے؟ بچے کی سوچ پہلے گھر سے بننا شروع ہوتی ہے۔ پھر اردگرد کا ماحول اور معاشرہ اس پر اثرانداز ہونا شروع ہوتا ہے۔ یہ تو والدین کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ پورے معاشرے کو یک لخت بدلا جا سکے مگر اپنے اپنے گھر کے ماحول سے بچوں کے ذہن پہ ایک مثبت اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ نسل کا مستقبل والدین کا کردار اور ان کی تربیت طے کرتی ہے۔
ہماری سوچ ہماری نظر کو طے کرتی ہے اور سوچ کو تربیت بناتی ہے۔ سوچ ننگی ہو تو پردے میں بھی عورت ننگی نظر آسکتی ہے۔ اس بات کا مقصد پردے کی دینی اہمیت سے انکار نہیں بلکہ تربیت میں دینی پہلو کو مدنظر رکھنا سب سے اہم ہے کیونکہ یہی مکمل بنیاد ہے۔ اس بات کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر کوئی بے پردہ ہے تو اس کا استحصال بھی کیسے جسٹیفائڈ ہے۔
لہذا بات صرف اتنی ہے کہ معاشرے کی دینی اور اخلاقی دونوں سطحوں پر صحیح معنوں میں تربیت ہونا ضروری ہے۔ ہر فرد کی تربیت اسکے گھر سے ہوتی ہے۔ مثبت رحجانات کو ترغیب گھر کے ماحول سے ملتی ہے۔ تربیت کے ساتھ ساتھ کنٹرول خصوصاً ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال پر چیک رکھنا بے حد ضروری ہے۔
بچوں کے چھوٹی عمر میں موبائل کے استعمال پہ پابندی ہونا ضروری ہے اور عمر کے ساتھ ساتھ جب ضرورت پڑ بھی جائے تو بھی اس پر کنٹرول ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحبت اور دیگر ایکٹیویٹیز کا جائزہ کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچوں میں اچھی اور صحت مند عادات پیدا کرنا ضروری ہیں جیسے ورزش، آوٹ ڈور گیمز اور کتاب بینی۔
وہ اولاد پیدا کرنا ضروری نہیں کہ جس کی تربیت صحیح اصولوں پر کرنے کے لیے والدین کے پاس وقت نہ ہو اور وہ معاشرے پہ بوجھ بن جائے، بلکہ معاشرے کو ایک کارآمد فرد دینا ضروری ہے۔ جو ایک بہتر انسان بن کر ملک و قوم کے کام آسکے۔