اس کے بعد اجالا ہے

منگل 18 اپریل 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کچھ باتیں پُراسرار ہوتی ہیں، ان کا اسرار کھلتے کھلتے کھلتا ہے جیسے مولانا فضل الرحمان کا ایک کلمہ: ‘بہار آئے نہ آئے خزاں جائے’۔

مولانا کا یہ سخن بظاہر یہی لگتا تھا کہ اس کا جنم حد سے بڑھی ہوئی مایوسی کی کوکھ سے ہوا لیکن حامد میر صاحب کو اپنے بے انتہا دلچسپ اور انکشاف انگیز انٹرویو میں آصف علی زرداری صاحب نے جو کچھ بتا دیا ہے، اس کے بعد بہت سے رازوں سے پردے اٹھ گئے ہیں اور ممکنہ طور پر جو کچھ غیب سے ظہور میں آنا ہے، اس کے اندازے بھی ہو رہے ہیں۔

یہ تذکرہ وسط ایشیا کے ایک ملک کا ہے۔ رات بھیگ چکی تھی، ہم تھک چکے تھے لیکن مناظر کمبخت ایسے ضدی تھے کہ ایک کے بعد ایک آئے چلے جاتے تھے۔ ایسی صورتحال میں مسافر کا سب سے زیادہ ساتھ اس کے جوتے دیتے ہیں اور میرے جوتے ایسے ہی آرام دہ تھے۔

ہم 3 مسافر ہوٹل سے نکلے اور ایک لمبا چکر کاٹ کر پچھلے بلاک میں داخل ہوگئے جس کی آسمان کو تھگلی لگاتی ہوئی عمارت کی کھڑکیاں اسلم کمال کی مصوری بلکہ ان کی کھڑکیوں کی یاد دلاتی تھیں یا پھر طلسم ہوش ربا کی کہانیوں کی، فیروز سنز سے شائع ہونے والے جن کے ری ٹولڈ ایڈیشن میں نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں پڑھے اور سرشار ہوا۔

اب بڑھاپے کی دہلیز سے گزرتے ہوئے عین ویسے ہی مناظر آنکھوں کے سامنے آگئے تو حاتم طائی کا قصہ یاد آیا۔ حاتم طائی کا قصہ دلچسپ ہے۔ ایک بار وہ کسی طلسماتی سمندر کے کنارے پر جا پہنچا اور جادو کا یہ کارخانہ حیرت کے عالم میں دیکھنے لگا۔ وہ ابھی خود ہی حیرت کی تصویر بنا کھڑا تھا کہ ایک واقعہ اور رونما ہوگیا، پانی کی تہہ سے ایک پری ابھری اور اس کا ہاتھ پکڑ کر غوطہ لگا دیا۔ تہہ آب میں حاتم طائی نے کیا کچھ دیکھا، اس نے بیان تو کرنا چاہا لیکن زبان ساتھ نہ دے سکی، جس پر میر امن دہلوی نے اس کی زبان سے وہ جملہ کہلوایا جو آج ایک عالمگیر سچائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ حاتم نے کہا تھا: ‘ایک بار دیکھا، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے’۔

کوہ قاف کے قرب و جوار میں پائی جانے والے اس ملک کی وہ جادوئی عمارت میں نے دیکھی تو یہی جملہ میری زبان پر آیا اور قدم بے اختیار اس کی طرف اٹھ گئے۔ عین اسی وقت ہم سفر نے مجھے بازو سے پکڑا اور میرا رخ بدلتے ہوئے کمال کی ایک بات کہی:

‘یہ سیکیورٹی اسٹیٹس ہیں، نہیں معلوم ہمارے قدم کہاں پڑیں اور ہمارے وارث ہمیں کہاں پڑا پائیں؟ بس، عافیت اسی میں ہے کہ قدم اس سیدھی کالی سڑک سے دائیں بائیں نہ بھٹکیں۔’

یہ ہمسفر ایک سرد و گرم چشیدہ سفارتکار ہیں۔ ذہن کی کھڑکیاں اور پیشانی کی آنکھیں کھلی رکھنا ان کے پیشے کی شرط اوّل ہے۔ یہ کیفیات جسے میسر آجائیں، اس کی خوش قسمتی کے کیا کہنے، ہم سفر اسی مزاج کے تھے۔ خوشگوار چہل قدمی کے دوران جب ایسے نازک مقامات آجائیں تو گفتگو کا رخ پلٹ ہی جاتا ہے، یہاں بھی پلٹا اور انہوں نے ایک بات کہی۔

فرمایا کہ یہ جو ہمارے یہاں ان دنوں اچھل کود ہو رہی ہے، کبھی کوئی ادارہ خود سر ہو جاتا ہے یا سوال چنا جواب گندم جیسے فیصلے عدالتوں سے آنے لگتے ہیں، آپ جانتے ہیں، سبب کیا ہے؟ ان کا اشارہ 2014 سے شروع ہونے والے دھرنے سے لے کر 2017 کے فیصلے کی طرف تھا جس میں پانامہ سے شروع ہونے والی بات اقامہ تک جاپہنچی تھی۔

ہم لوگ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے تو ایک جملہ کہہ کر انہوں نے ہمیں مزید حیرت میں مبتلا کردیا۔ کہنے لگے کہ ‘یہ ساری تیاری پاکستان کو بھی ایک ایسا ہی ملک بنانے کی ہے جہاں ایک ہی لیڈر ہو، ایک ہی جماعت ہو، انتخابات تو ہوں لیکن ایک ہی جماعت اس میں حصہ لے اور کارخانہ ریاست سے کچھ اسی قسم کی پیداوار نکلا کرے جس کی خواہش اس فردِ واحد کے ذہن میں انگڑائی لے’۔

سفارتکار نے بم چلا دیا تھا اور سیاحت کے نام پر جاری آوارہ خرامی میں حقیقت کی تلخی گھل چکی تھی۔ یہ انکشاف سنا تو مجھے مرحوم صدر صاحب یعنی ممنون حسین صاحب کی ایک بات یاد آگئی۔

ہمارے یہاں ایوانِ صدر کے بارے میں عجیب و غریب تصورات ہیں، بعض اوقات بڑے سمجھ دار لوگ بھی ناقابلِ فہم باتیں کہہ جاتے ہیں۔ نجم سیٹھی صاحب نے ایک بار یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس ایوان کو اگر اتنا غیر فعال رکھنا ہے تو بہتر ہے کہ اسے ختم ہی کردیا جائے۔

لوگوں کی باتیں اور خیالات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑا فعال ایوان ہے اور 58 (2) بی کے نہ ہونے کے باوجود بڑا مؤثر ہے کہ جب چاہے، بحران پیدا کرسکتا ہے۔ عارف علوی صاحب ان دنوں جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے خوب اندازہ ہوجانا چاہیے۔

ممنون صاحب کے دور میں بھی اختلافات ہوا کرتے تھے، یہاں تک کہ وزیرِاعظم کی طرف سے آنے والی سمریوں اور قانون سازی پر بھی۔ یہ مسودے واپس بھی جاتے تھے لیکن چونکہ نیت بحران پیدا کرنے کی نہیں اصلاح کی ہوتی تھی، اس لیے خبریں نہیں بننے دی جاتی تھیں۔

خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، بتانا یہ تھا کہ اس ایوان میں خبریں بھی ہوتی ہیں، اس کا مکین باخبر بھی ہوتا ہے اور اگر صاحب بصیرت بھی ہو تو تجزیہ بھی وہ خوب کرتا ہے۔ 2014 سے شروع ہونے والے ہنگامے کے بارے میں ممنون صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے چند خاص مقاصد ہیں:

1- پاکستان کی تہذیبی انفرادیت کا خاتمہ کیونکہ اس کی بنیاد ان فطری قوانین پر استوار ہے جو انسان کو مدر پدر آزادی سے بچا کر اس راہِ نجات کی طرف لے جاتے ہیں جو اس کائنات کی تخلیق کا حقیقی مقصد ہے۔

2- ہمارے آباؤ و اجداد اور آئین سازوں نے پاکستان کے قومی مقاصد کے حصول کے لیے آئین کی شکل میں جو اصول و ضوابط طے کردیے ہیں، ان کا خاتمہ۔ (اس مقصد کے لیے پاکستان کے آئین میں کس قسم کی تبدیلیاں منصوبے میں شامل رہی ہوں گی، اندازہ کیا جاسکتا ہے۔)

3- پاکستان کا دفاعی پروگرام خطے کے خاص محل وقوع کی وجہ سے اس کے وجود کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ ایٹمی پروگرام کے ضمن میں صدر ممنون حسین صاحب کے علم میں کچھ منصوبوں کی تفصیلات بھی آئی تھیں لیکن اس موضوع پر انہوں نے اپنی زبان ہمیشہ بند رکھی۔ (وہ حیات ہوتے تو ممکن ہے کہ موجودہ حالات میں اس کا ذکر ضروری سمجھتے۔)

کیا شبہ ہے کہ اس قسم کی عظیم سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی حکومت کی کوئی ایک آدھ معیاد کافی نہیں ہوتی، طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔

آصف علی زرداری صاحب نے بتا دیا ہے کہ یہ ایک ایسی سازش تھی جس کا دورانیہ نہ 2، 4 برس تک محدود تھا اور نہ کسی حکومت کی ایک آدھ معیاد تک، پورے 35 برس کی حکمرانی کا منصوبہ تھا، بدقسمتی سے یہ منصوبہ بروئے کار آجاتا تو لوگ دہائیوں تک حکمرانی کرنے والے حسنی مبارک اور صدام حسین جیسے بدترین آمروں کو بھول جاتے۔ تو بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری کے اس انکشاف سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان خزاں کی رخصتی کے لیے کیوں اتنے بے چین تھے کہ آمد بہار بھی ان کے لیے بے معنی ہوچکی تھی۔

یہ ہے وہ طویل پس منظر جو پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پُراسرار پہلوؤں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب کے انکشافات کے بعد ایک سوال اب بھی پریشان کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سارا کچا چٹھا کھل جانے، حتیٰ کہ بعض ریاستی اسٹیک ہولڈرز کی آنکھیں کھل جانے اور ان کے سجدہ سہو کے بعد بھی یہ کیسے ممکن ہوگیا کہ بعض طاقتور عناصر اب بھی اسی راستے پر گامزن ہیں اور بہت سارے زمینی حقائق بدل جانے کے باوجود ان کے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو رہی؟ کسی طویل اور پیچیدہ منصوبے کے بہت سے پہلو بعض اوقات تو ہمیشہ ہی پُراسرار رہتے ہیں، وقت کی آندھی ہی ان پر پڑی گرد ہٹاتی ہے لیکن بعض اوقات اس کا ایک سبب نفسیاتی بھی ہوتا ہے۔

اس جانب بھی زرداری صاحب نے بہ انداز دیگر اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مجرم ایک مرتبہ شیر پر سوار تو ہوجاتا ہے لیکن اس کے بعد خوف اسے اترنے نہیں دیتا۔ جرم کے بعد جرم کیے جانے کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے۔ اس وقت بھی یہی کیفیت ہے لیکن پارلیمنٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کمیٹی کا حالیہ اجلاس موجودہ صورتحال میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ پارلیمان کو روندنے والی قوتوں نے اس کی عظمت کو تسلیم کرکے اس کی بالادستی کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp