پاکستان کی تاریخ میں سیاست دانوں کے کپڑے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ان سیاسی کپڑوں کے فیشن کا آغاز قائد اعظم محمد علی جناح سے ہوا جب وہ انگریز اشرافیوں کے دور میں کوٹ شوٹ ٹائی شائی اور کالے جوتے پہنا کرتے تھے۔
پھر جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو جناح نے کالی شیروانی کو زیب تن کیا اور ساتھ جناح کیپ رکھی تو محمد علی جناح کا یہ فیشن آج بھی مسلسل جاری و ساری ہے۔ پاکستان میں جیسے جیسے سیاسی ادوار بدلتے گئے ویسے ہی سیاستدانوں اور ڈیکٹیٹروں نے اس فیشن میں مزید جدت لائی، کالی شیروانی موقع کی مناسبت سے اپنے رنگ بھی بدلتی رہی ،کبھی شیروانی سبز تو کبھی سفید، کبھی کشیدہ کاری والی تو کبھی بغیر کشیدہ کاری کے, کبھی کشمیری کشیدہ کاری تو کبھی سندھی۔ یہ سلسلہ کافی طویل رہا۔
پھر اچانک اس فیشن میں تبدیلی اور سونامی آئی۔سیاستدان دست و گریبان ہونا شروع ہوئےایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے لگ گئے. خود بھی ننگے اور عوام کو بھی بھوکا ننگا رہنے پر مجبور کر دیا۔کیونکہ کھیل سے ریٹائرڈ کپتان نے باقائدہ عملی سیاست میں چھلانگ ماری تو ابھی تک ایسا لگا ہے کہ عوام کی قسمت ماڑی ۔!
اپنے بھی کپڑے پھاڑے ایک واقعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بھی ہوا جس کا بدلہ ایسا لیا کہ لوگوں کو بہلاپھسلا کے اسلام آباد لے آئے جہاں ان کے کھلاڑیوں نے ایوان زیریں اور ایوان بالاں کےجنگلے توڑے اور اپنے کپڑے اتار کر دیواروں پر لٹکا دئیے اور کچھ اکھٹے کرکے آگ لگادی۔
کرکٹ کے ریٹائرڈ کپتان نے اس وقت اپنے ساتھ ایک منہ بولے کزن کا بھی سہارا لیا جنہوں نے کپڑوں کےکفن بنائے اور شاہراہ دستور پر قبریں بھی کھودیں پھر اپنے ایمپائروں کی ایما پر حساس علاقے میں مزے کرتے رہے خوب ڈانس پارٹیوں کا اہتمام ہوا پھر ان کا قصہ تمام ہوا اور وہ اپنے قافلے واپس لے گئے اور پھر مسند اقتدار پر براجمان ہوئے ۔
پھر ننگی عوام اور پنگی قیادت نے اقتدار کے نشے کے ساتھ اصلی نشہ بھی جاری رکھا اور اقتدار کے نشے میں ایک خاص ٹولے کو سڑکوں پر ذلیل و خوار کرنا شروع کر دیا۔
یہ کام بھی تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا گیا کہ حکومت کے مزے بھی اور ساتھ اپنی خاص قوم کو سڑکوں پر خوار بھی خوب کئے رکھا. لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن جو سڑکوں پربھی ہیں، پھر ایک سونامی آئی ملک و قوم کا بیڑا غرق کر کےچلی تو گئی مگر اپنا نام روزانہ بدلتی ہے۔جب مسند اقتدار ہاتھ سے گیا تو سونامی کبھی امریکہ تو کبھی اپنے اداروں پر ہی تباہی پھیرتی نظر آئی۔
سوشل میڈیا پر تیس پینتیس ہزار ماہانہ وظیفوں نے اداروں کے سربراہان کی خوب کردار کشیاں کیں اور یہ جن بے قابو رہا چند طاقتور لوگوں کے بچوں اور خاندانوں کو خاص سازش کے تحت اپنے ساتھ ملا لیا۔اورخاص اداروں سے امیدیں لگا لیں کہ یہ ہمارا ساتھ دیں گے۔
اس کے ساتھ نوسربازیوں کا بازار میں بھی رش اکٹھا کرنے کی چالیں جاری و ساری رکھیں۔قلابازیوں پر قلابازیاں بھی جاری رہیں اور اپنی جان کی بازی بھی اقتدار کی راہ میں ڈالی۔
جہان فانی سے کوچ کرجانے کی بریکنگ نیوز بھی جاری کر ڈالی۔ریٹائرڈ کپتان جو کہ موجودہ سیاست دان ہیں نے روزانہ اپنے آپ کو جہان فانی سے کوچ کرکےسونے کی کوششیں کیں مگر خواب میں کرسی کی خواہش نے سونےنہیں دیا۔
پھر مرشد کے ٹونے تعویزوں نے بلٹ پروف انتظامات کی ہدایت کردی اب موصوف جو کبھی نا ڈرنے کے ڈائیلاگ مارا کرتے تھے اب اسکی جگہ بغیر حفاظتی انتظامات کے اپنے آپ کو مارا کرتے ہیں پھر خود تو روزانہ جی اٹھتے ہیں مگر بائیس کروڑ عوام کو روزانہ مرجانے یا انقلاب و آزادی کی خاطر جینے کی تدبیریں بتاتے ہیں۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے