کچھ عرصہ سے قریبی دوستوں کی اکثریت کی زبانی نئی نسل سے شکوے کچھ زیادہ ہی سننے کو مل رہے ہیں۔ میرا خیال یہ تھا کہ ہر عہد کے تقاضے اوررجحانات الگ ہوتے ہیں اور ہر زمانے میں پرانے لوگ یہی شکوہ کرتے ہیں اورنئے عہد اور نئی نسل کی خرابیاں گنواتے ہیں لیکن کچھ ایسی کہانیاں سنیں کہ میں سوچنے پرمجبور ہو گیا۔
جن والدین نے اپنا سکون تج کر اور انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کر کے بچوں کی تربیت کی اورانہیں کامیاب بنایا، وقت آنے پر انہی بچوں نے والدین کو نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ اذیت ناک دکھ پہنچائے۔ جب اس کی وجوہات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تو یہ سمجھ آیا کہ نئی صدی سے پہلے تک ترقی اور تبدیلی کا رجحان اتنا تیز نہیں تھا سو 2 نسلوں کے بیچ فاصلہ اس قدر زیادہ نہیں تھا۔ موجودہ عہد میں چیزیں واقعی بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی ہیں۔
21ویں صدی میں پیدا ہونے والی نسل بالکل مختلف ہے۔ جیسا کہ آغاز میں عرض کیا کہ ہر نسل کا اس سے پہلی والی نسل کے ساتھ تعلق اس طرح مضبوط تو کبھی بھی نہیں رہا کہ وقت کی اپنی رفتار ہے اور تہذہب ہر لمحہ ارتقا پذیر ہے لیکن عہد موجود جسے سوشل میڈیا کا عہد بھی کہا جاتاہے، ہر حساب سے جدا ہے اوراس دور کے بچے پچھلی نسل سے کچھ زیادہ ہی فاصلے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ویسٹ انڈیز: کالی آندھی سے کالی دھند تک
انسانی تہذیب کے ابتدائی ادوار کو لاکھوں اور ہزاروں سال کے وقفوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن صنعتی انقلاب کے بعدیہ رفتار دہائیوں کے وقفوں سے ہوتی ہوئی اب سالوں کے وقفوں میں ڈھل چکی ہے۔ بلکہ اقدار کے بدلنے کی رفتار لمحوں تک آ چکی ہے۔ ہر لمحہ کچھ نیا ہورہا ہوتا ہے اور جس وقت ہم یہ پڑھ رہے ہیں خدا جانے دنیا میں کون سا واقعہ یا کون سی نئی ایجاد ہو رہی ہو یا دنیا کے کرتا دھرتا بساطِ دنیا پر کون سی نئی چال چل رہے ہوں جو اگلے چند دنوں میں دنیا کے منظر نامے کو بدل کر رکھ دے۔
ایک چھوٹی سی مثال دیکھیے کہ چند برس پہلے تک مصنوعی ذہانت کے بارے میں خدشات اور اندازے ہی تھے اوراس پر ابھی سیر حاصل بحث بھی نہ ہوئی تھی کہ اس نے انتہائی سرعت سے دنیا بھرکے نظام کو اپنے قابو میں کر لیا اوراب تو یوں لگ رہا ہے کہ اس کے بغیر گزارا ممکن ہی نہیں۔ خیر یہ بھی ان کا مسئلہ ہے جو ہم سے زمانوں آگے ہیں۔ پچھلی صدی تک ہمارا باقی دنیا سے فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا اس تیزرفتار ترقی نے بڑھا دیا ہے۔ ہم تو ویسے ہی اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا سے بہت پیچھے ہیں اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ماضی کے ساتھ رومانس ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ ہم ہزاروں سال پرانے جھگڑوں کو اب بھی ضرورت سے زیادہ وقت اوراہمیت دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی دوستیاں اور دشمنیاں بلکہ رشتے ناطے ہزاروں سال پرانے مسائل اور قضیوں کے تناطر میں طے ہوتی ہیں۔
کچھ روایات ہیں تماشوں کی
کچھ روایات کا تماشا ہے
(سجاد بلوچ)
ایسے میں کسی نئی بات، کسی نئی ایجاد، کسی نئے رجحان کو اپنانا تو دور کی بات ہے اسے تسلیم کرنا بھی ہم اپنے لیے ناممکن بنا دیتے ہیں۔ اور یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جو ہمیں ہر میدان میں مزید پیچھے دھکیل رہا ہے۔ یہ انحطاط زندگی کے ہر شعبے میں واضح دکھائی دیتا ہے۔ اگلے دن کچھ احباب سے وقت کی پابندی کے حوالے سے اس تناظر میں بات ہو رہی تھی کہ میں نے اکادمی کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد یہ طے کیا تھا اور سب دوستوں سے گزارش کی تھی کہ تقریب ٹھیک وقت پر شروع ہو گی لیکن کسی نے میری بات کو اہمیت نہ دی۔ دوست یہی کہہ رہے تھے کہ آپ جو مرضی کر لیں، جتنا چاہے تاکید کر لیں، کوئی بھی تقریب میں وقت پر نہیں پہنچتا۔ بات ہوتے ہوتے بڑے ادیبوں اوران کے رویوں کا ذکر چل نکلا کہ وہ دور پھر بھی اچھا تھا کہ لوگ وقت کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ اب وہ بڑے نام جیسے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے یہ گزارش کی کہ یہ حال صرف ادب کا نہیں ہر شعبے کا ہے۔ مذہبی رہنمائوں کو دیکھ لیں، سیاست دانوں کو دیکھ لیں، گلوکاروں، اداکاروں ، فنکاروں یہاں تک کہ کھلاڑیوں کو دیکھ لیں، اب وہ بات نہیں ہے۔ نئی نسل کسی بھی فن اور فنکار کو اس طرح سنجیدہ لیتی ہی نہیں۔ ایک طرف دیکھیں تو سیاسی شعور کے نام پر طوفان مچا ہوا ہے اور یار لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل باشعور ہے لیکن غور کریں تو جن کا فنون لطیفہ کا ذوق اس قدر بودا اور کمزور اور سطحی ہے وہ دیگر چیزوں کا مشاہدہ یا تجزیہ گہرائی کے ساتھ کرنے کی صلاحیت کیسے رکھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ دوغلے پن کا شکار ہیں، ایک طرف ذاتی معاملات اور رشتوں کے حوالے سے نئی نسل کی برائیاں کرتے پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف اسی نسل کو باشعور بھی کہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: جب 2 عظیم مصنفین نے 2 دن ایک ساتھ گزارے
یہ نسل وہ ہے جو زندگی کے معاملات میں اپنے والدین کا خیال رکھنے، ان کا احساس کرنے اور اپنی زندگی کی رشتوں کے معاملات طے کرنے اور انہیں نبھانے میں انتہائی عجلت پسند اور سطحی سوچ کی حامل واقع ہوئی ہے، اور غور کریں توسیاسی و نظریاتی تصوارت اور معاملات میں بھی ان کا یہی وتیرہ ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کی نہیں اکثریت کی بات ہو رہی ہے، ظاہر ہے اس دور میں بھی ایسے نوجوانوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اپنے خانوادوں کی رہنمائی یا اپنی لگن یا کسی درسگارہ یا کسی اچھے استاد کی رہنمائی کے باعث واقعتاً باشعور اور کتاب اور علم سے حقیقی جڑت رکھنے والے ہوتے ہیں اور دلیل سے بات کرتے اور توجہ سے سنتے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد دوسرے گروہ کے مقابلے میں تناسب کے لحاظ سے بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: اگر انسان بھی موسم سرما سو کر گزار سکتے۔۔۔
نئی نسل فن کی باریکیوں کی بجائے ہلے گلے اور شور شرابے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ ٹک ٹاک کی دنیا ہے، ان کا فوکس چند لمحوں کا ہے۔ اس کی بڑی وجہ وہ توجہ کا کم ہوتا دورانیہ بھی ہے جو ایک اسکرین کے اندر گم ہونے کے باعث بہت ہی مختصرہوتا جا رہا ہے۔ چند مربع انچ کی ایک اسکرین ہی ان کی پوری دنیا ہے اور اسی کھڑکی سے انہیں سب علم، سب اقدار، رشتے، ناطے، نظریات مل رہے ہیں۔ وہ اسکرین جن کے کنٹرول میں ہیں اب وہ جانیں اور یہ نئی نسل اور ا ن کی دنیا جانے۔ لیکن اس کے بارے میں سوچنے سمجھنے والے دماغ بھی مجھے کہیں سنجیدگی سے بات کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ اس سے بھی بڑا المیہ ہے۔ جس طرح ہم بہت چھوٹے بچوں کو ان کے رونے سے تنگ آ کر موبائل پکڑا دیتے ہیں، اسی طرح آگے چل کروہ جوں جوں بڑے ہوتے ہیں ان کی دیگردلچسپیاں بھی اپنی جان چھڑانے کے لیے قبول کرتے جاتے ہیں اور ایک دن وہ وقت آتا ہے کہ ہمارے قابو میں کچھ بھی نہیں رہتا۔ یہ بے بسی پچھلی نسل کا مقدر ہو چکی ہے اور یہ آزادی نئی نسل کا خطرناک مستقبل ہے، جو خدا جانے انہیں ابھی مزید کیسے کیسے مسائل سے دوچار کرے گی۔