عید سے عید تک

ہفتہ 22 اپریل 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‘کل جہاں پھول کھلتے تھے آج وہاں خاک اڑتی ہے۔’

ذکر عید کا تھا اور یادیں کمال کی۔ بات کل کی عید سے آج کی عید تک پہنچی تو کسی نے ہوکا بھرا، کوئی اداسی سے مسکرا دیا، کسی کے لب پر کوئی بات آتے رہ گئی اور گجراتی اسپیکنگ خالد اسماعیل نے حسبِ معمول وہی کیا جو لڑکپن میں کیا کرتا تھا، نہایت سنجیدگی کے ساتھ سیگریٹ لبوں سے لگائی، آخری کش لیا اور نہ چاہتے ہوئے ہاتھ ایش ٹرے کی طرف بڑھایا، اگلے لمحے جہاں سے کسی مسلی ہوئی امید کی طرح سیگریٹ کا دھواں اٹھ رہا تھا پھر اس نے میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے ہمیشہ کی طرح پنجابی میں کہا کہ چھڈ یار۔

اس پر وہ جملہ وجود میں آیا جسے سن کر کوئی نہ بولا لیکن کسی نے سر ہلا دیا، کسی نے جھکا دیا، کسی نے آنکھیں میچ لیں اور کوئی، کوئی ازکار رفتہ یا شاید کوئی دلکش دھن گنگنانے لگا یوں میں نے یہ جانا کہ گویا یہی ‘اُس’ کے دل میں ہے یعنی:

‘کل جہاں پھول کھلتے تھے آج وہاں خاک اڑتی ہے۔’

ایک بچہ تھا، بھولا بھالا، گول مٹول، عام طور پر تیوری اس کے ماتھے پر رہا کرتی تھی، علی الصبح ماں نے رگڑ رگڑ کر اسے نہلا دیا، نرمی کے ساتھ کپڑے پہنا دیے، جرابوں میں پاؤں اس کے ٹھونس دیے تو اس کے بعد جوتے اس نے خود ہی پہن لیے۔ یہ عید کا وہی سوٹ اور وہی جوتے تھے جو چاند رات ہی کو سل کر آئے تھے، امی نے جنہیں استری کے بعد تیار کرکے رکھ دیا تھا اور جنہیں وہ رات بھر اٹھ اٹھ کر دیکھتا رہا تھا حالانکہ انہوں نے کہیں جانا تھا اور نہ کچھ ان کا بدلنا تھا۔

نئے کپڑے اس نے پہن لیے تو پلنگ سے اتر کر وہ تیر کی طرح بھاگا پچھلے کمرے سے نکل کر باہر سڑک کی طرف کھلنے والے دروازے کے متوازی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا، عید کے ہر دن کی طرح سورج کی مہربان کرنوں کے شرربار ہونے سے پہلے کے خنک ماحول میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے جانے پہچانے کلمات نشر ہو رہے تھے، اس نے بھی لے میں لے ملاتے ہوئے پڑھنا شروع کردیا:

‘یا نبی سلامَ علیکَِ، یا رسول سلامَ علیک’

یہ کلمات مکمل ہوئے تو ایک نسبتاً مختلف کلمہ نشر ہوا:

‘اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الااللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد’

اس کلمے کی لے سے لے ملانے میں اسے تھوڑا وقت لگا لیکن ذرا سی دیر کے بعد اس کی زبان رواں ہوچکی تھی۔

یہ گول مٹول بچہ اور ان سطور کا لکھنے والا رشتے میں سگے بھائی ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ اتنے ماہ و سال گزر جانے کے بعد جب گھنے بال ٹانواں ٹانواں ہوجاتے ہیں اور ان کی ظلمت کو چھوتی ہوئی سیاہی روئی کے گالوں جیسی سفیدی میں بدلنے کو تیار ہوتی ہے، اس عرصے میں اس موضوع پر ان کے درمیان کبھی بات نہیں ہوئی لیکن اس روز جب ہوئی تو سانولے سلونے داؤد نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور سوال کیا کہ تمہیں یہ بات کیسے یاد ہے؟ بس، یہیں سے باتوں کا جو سلسلہ دراز ہوا تو اس کی بھابھی کہنے لگیں کہ دو باتیں مجھے بھی یاد آتی ہیں:

‘ایک یہ کہ اس روز ہم بوتل پیتے تھے اور پان چباتے تھے۔’

یعنی کوئی کولا، کوئی فانٹا یا کنچا گرانے سے ٹھا کر کے کھلنے والے کسی مشروب سے لطف اندوز ہونا کوئی معمول کی بات نہیں تھی؟

‘ہاں، نہیں تھی۔’

بھابی نے مختصر جواب دیا لیکن اس اختصار میں بھی گویا ایک دبستان کروٹیں لے رہا تھا۔ یہ تذکرہ ابھی چلنا ہے لیکن اس سے پہلے تھوڑی بات عیدی کی ہونی چاہیے۔ عید کے روز بوتل پان سے مستفید ہونے کا ایک راز تو یہ تھا کہ ان دنوں یہ چیزیں ضرورت سے بڑھ کر تعیشات کے زمرے آتی تھیں اور جیب چونکہ عیدی سے بھاری ہوجاتی تھی لہٰذا اس کا ہلکا کرنا ضروری تھا۔

ویسے اس عیدی میں بھی ایک سیاست ہوا کرتی تھی۔ اس روز کتنی عیدی ملے گی، الیکشن کے نتیجے کی طرح اس میں تشنج بھرا تجسس ہوتا تھا اور ماں باپ کے علاوہ کسی مامے چاچے کی جیب سے کتنی نکلوانی ہے، اس میں پیار اور لاڈ بھری ایک بدمعاشی بھی ہوا کرتی تھی۔ اس عیدی کا انجام کیا ہوتا؟ مختلف خاندانوں کی روایات اس باب میں مختلف پائی گئی ہیں۔ کچھ لفنٹر اسے آن کی آن میں خرچ کرکے مزید کے طالب ہوتے اور کچھ خود سینت کر رکھ لیتے، البتہ بیٹیاں ماؤں پر اعتبار کرتی پائی جاتیں۔ یہ امانت پلٹ کر انہیں ملتی یا نہیں، یہ ایک الگ لیکن دلچسپ داستان ہے۔

عید اور عیدی کا جوڑ چونکہ ازل سے ہے، اس لیے یہ تذکرہ وقت سے کچھ پہلے ہوگیا، اصل بات تو سویوں کی ہے جن کے بغیر عید، عید بنتی نہیں۔ بھابھی نے بتایا کہ ابو جی اور بھائی جب عید کی نماز پڑھ کر لوٹ آتے تو سوئیاں تیار ہوتیں۔ امی نکال کر انہیں پلیٹوں میں ڈالتیں اور ہمیں پلیٹوں میں ہوائیاں سجانی پڑتیں۔ یہ ہوائیاں کیا تھیں؟ بھیگے بادام اور پستے کی اس نزاکت سے تراشی ہوئی پرتیں جو ذرا سی پھونک سے صحن میں بکھر جائیں لیکن زباں تلے آئیں تو اپنا آپ بتائیں:

‘میں ہوائی پستے کی ہوں یا بادام کی۔’

‘اللہ کی پناہ، کس قدر مشکل کام تھا یہ؟’

بھابھی نے مسکراتے ہوئے خیال ہی خیال میں ہاتھ یوں نچائے گویا ہوائیاں ہی تو کاٹ رہی ہیں۔

‘تو بھیا سوئیاں بھی تو بھانت بھانت کی ہوتی تھیں۔’

یہ یاد اٹھی تو ان سطور کے لکھنے والے ہی کے ذہن میں تھی لیکن بات یوں اچک لی گئی کہ ملکیت کا ٹنٹا ختم ہوا۔ چلیے اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں لیکن بتانے والی بات یہ ہے کہ سوئیاں 3 قسم کی ہوتی تھیں:

اول، وہی شفاف کڑکتے ہوئے لفافے میں کریانے کی دکان سے ملنے والی۔

دوم، پوٹا سوئیاں، سوئیوں کی یہ قسم آج تو نایاب ہے ہی، اس زمانے میں بھی نایاب ہی ہوا کرتی تھی۔ اس جنس کی نایابی کا راز بھی کم دلچسپ نہیں لیکن جاننے کی بات یہ ہے کہ انہیں پوٹا سوئیاں کیوں کہا گیا؟

دائیں بائیں کے راز دانوں کو اس سوال پر چپ لگنی ہی تھی اور وہ لگی، اس پر یادوں کی گرہیں امی نے کھولیں۔ اصل میں ہوتا یہ تھا کہ گاؤں میں رہنے والی کوئی پھپھو، کوئی خالہ یا کوئی وہ جس کا رشتہ نہ خالہ کا ہوتا نہ پھپھو کا لیکن اس کی محبت اور گرم جوشی انہی خالاؤں پھپھوؤں جیسی ہوا کرتی تھی، شیشے کے مرتبان میں بھر کر آخری عشرے میں لایا کرتی تھیں اور جاتے وقت نہ نہ کرتے ہوئے ریشمی کپڑے کا وہ سوٹ بالآخر لے ہی لیا کرتی تھیں، عید کی خریداری کے وقت جسے خاص طور پر خرید کر رکھ لیا جاتا تھا۔

پوٹا سوئیوں کے ذکر پر رشتوں کی نشست و برخواست کا ذکر بھی دلچسپ ہے لیکن اصل اسرار تو ان سوئیوں کے نام میں ہے۔ ان سوئیوں کے لیے رمضان کے شروع میں ہی تیاری شروع ہوتی، آٹے میں دو طرح کی ملاوٹ کا ذکر ملتا ہے، زعفران کی یا زردہ (رنگ) کی، اب خدا جانے یہ ملاوٹ کس چیز کی تھی لیکن زرد، سرخ، گلابی اور سبز نیلے رنگوں میں بننے والی ان سوئیوں کا خاص آٹا گوندھ کر ایک برتن میں اس احتیاط کے ساتھ محفوظ کرلیا جاتا کہ اس کی نمی برقرار رہے۔ اس کے بعد دائیں بائیں بیٹھنے والیاں ٹکیہ بھر آٹا ہاتھ میں لے کر پہلے پیڑے کی طرح اسے گول کرتیں پھر روئی کی انی کی طرح لمبا سا ایک لوندا بناتیں، اس لوندے کا جادوگر انگلیوں تک پہنچنے والا حصہ باریک ہوتا پھر اس باریک حصے کی ہوا برابر مقدار کو نفاست سے علیحدہ کرکے انگوٹھے اور انگشت شہادت کے درمیان رکھ کر اس کمال کی مروڑی دی جاتی کہ وہ گھومتی شافٹ جیسے منے سے وجود کی صورت پلیٹ میں جا گرتا، سائے میں اسے سکھا کر محفوظ کرلیا جاتا۔ دیسی گھی میں بھون کر بنائی جانے والی ان سوئیوں کی ڈش کو زردے کا نام دیا جاتا تھا جسے عام طور دوپہر یا رات کے کھانے کے ساتھ پیش کیا جاتا۔

سوئیوں کی یہ قسم بھی خوب ہے یا تھی لیکن اصل سوئیاں تو وہ ہوتیں جنہیں گھوڑی کی مدد سے بنایا جاتا۔ گھوڑی کے ذکر پر ہنہنانے والی کسی مخلوق کا خیال ذہن میں آجائے تو قصور میں اس تذکرہ نویس کا نہیں، شاید اس قوت کا ہو، سوئیوں کی اس قسم کی تیاری کے دوران جس کے صرف ہوجانے سے بازو شل ہوجایا کرتے تھے۔

ان سوئیوں کی تیاری بھی ایک سائنس تھی لیکن زیادہ دلچسپ چیز ان کے نام میں ہے۔ اصل میں یہی وہ سوئیاں ہیں جن کی وجہ سے پنجاب کے بڑے بڑے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی سوئیوں کو ‘سے ویاں’ کہا جاتا ہے۔ یہ ‘سے ویاں’ بنتی تو گھر میں تیار کیے گئے میدے سے ہی تھیں لیکن اس میدے کو عام طور پر آٹا ہی کہا جاتا جس کی تیاری میں کچھ صدری نسخوں کا بھی دخل تھا جو ہر خاندان کے قیمتی رازوں میں ایک راز کا درجہ رکھتے تھے۔

گھوڑی ایک سادہ سی مشین تھی، قصاب کی قیمہ بنانے والی مشین جیسی جسے رسی کے ساتھ کس کر چارپائی کی ادوائین والے حصے میں باندھ لیا جاتا، اوپر کے حصے میں آٹا ڈال کر کپڑا سینے والی مشین کی ہتھی جیسے ایک لیور کو چلایا جاتا۔ سوئیاں سازی کے اس عمل میں سب سے زیادہ دلچسپی بچوں کو ہوتی۔ وہی سب سے پہلے مشین چلاتے، سب سے پہلے انہی کے بازو شل ہوتے اور وہی سب سے پہلے غائب ہوتے۔ ان کے بعد گھر کی عورتیں رہ جاتیں اور ان کی مدد گاریں۔ وہی ‘سے ویوں’ کے گول گول چھجے تیار کرکے پہلے سے بچھائی گئی چارپائیوں پر سوکھنے کے لیے ڈالتی جاتیں۔

پھر عین عید کے روز انہیں دیسی گھی میں کڑکرانے کے بعد پانی میں جوش دے کر ابال لیا جاتا اور پانی کو بہا کر ان کے لچھے گہری پلیٹ میں رکھ کر، اوپر سے دودھ ڈال کر اور دودھ کے اوپر شکر بکھیر کر پیش کیے جاتے۔ چمچ کانٹے کے ساتھ جب انہیں کھانے کے لیے منہ میں ڈالا جاتا تو عید کی خوشیوں کی طرح ان لچھوں کی لمبائی بھی کبھی ختم نہ ہوتی اور لڑکے بالے بدمعاشی کرتے۔ چبا کر انہیں نگلتے جاتے لیکن منہ میں جانے والی ‘سے ویوں’ کا ایک حصہ پلیٹ میں ہی لٹکتا دکھائی دیتا۔ لمبے نوڈلز کو سنبھال کر کھانے کی مشق رکھنے والے ان ‘سے ویوں’ سے لطف ہونے کا طریقہ کچھ کچھ سمجھ سکتے ہیں۔

یہ عین حقیقت ہے کہ عید کے اس خاص پکوان کی لمبائی کی طرح عید کی خوشی بھی لامحدود تھی۔ گلی کوچوں میں مزے مزے کے اسٹال لگتے۔ کچھ موسمی دکانداروں کے اور کچھ پکے دکانداروں کے۔ ان میں ایک تو مٹھائی کا ہوتا جو تمبو قناتیں لگا کر عید کی شب گھڑا کرلیا جاتا۔ عید کی صبح بچے مٹھائی کا اسٹال دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ حیرت ہوتی کہ یہ شخص اتنی بڑی مقدار میں انہیں بنا کیسے لیتا ہے اور ان کی ڈلیوں سے محلات کے نمونے تعمیر کیسے کرتا ہے۔ اس کی دکان پر ہجوم ایسا ہوتا کہ خدا کی پناہ۔ اللہ بخشے، ابّا جی ہمیشہ منع کیا کرتے کہ یہ دکان دراصل بیماری کی کان ہے۔ کم بخت آج تک حسرت ہے کہ کم از کم ایک بار تو یہ مٹھائی چکھ لی ہوتی۔

اس روز کھانے پینے کی جو بہار گھر سے شروع ہوتی، بازار تک جاتی لیکن بازار کی دلچسپی صرف کھانے پینے کی چیزوں تک محدود کہاں تھی، بہت کچھ اور بھی اس روز دیکھنے میں آتا۔ گلی بازار میلے کا منظر پیش کرتے اور اس میلے کی ایک پہچان چند خاص چیزیں ہوتیں، جھولے، لکڑی کے 2 مضبوط پھٹوں سے باندھے ہوئے۔ چار کھٹولوں سے لے کر آسمان کو چھوتا ہوا بہت سے کھٹولوں والا بڑا جھولا۔ جھولا چھوٹا ہوتا یا بڑا، یہ سب دائیں سے بائیں خواہ ہاتھ سے، خواہ موٹر سے دائرے کی صورت گھمائے جاتے۔ جھولوں میں سیر کے بھی اپنے آداب تھے۔ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے ‘ہووووووووووو’ کی طویل آواز نکالی جاتی اور اوپر سے نیچے آتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا تو لڑکیاں چیخنے لگتیں اور لڑکے خوف چھپانے کے لیے بکرے بلاتے۔ اوپر سے نیچے کے سفر میں ایک خاص بات تھی، ٹانگوں کے بیچ کچھ ایسا دباؤ پڑتا تھا جسے سب راز سمجھ کر کبھی ظاہر نہ کرتے۔ یہ بھی جنسی لذت کی ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ اس روز فقط جھولوں کے مزے نہ ہوتے، اونٹ گھوڑے کی سیر بھی ہوتی اور اس گانے کے بول بھی اکثر کان میں پڑتے:

‘لکڑی کی کاٹھی، کاٹھی پہ گھوڑا

گھوڑے کی دم پہ جو مارا ہتھوڑا

دم دبا کے گھوڑا دوڑا

دم دبا کے دوڑا’

لڑکے کچھ بڑے ہوجاتے تو مصروفیات بدل جاتیں۔ اس روز بھائیوں، کزنوں اور دوستوں کے جھرمٹ میں فلم دیکھنا بھی ضروری ہوجاتا۔ عید کی فلم کا ہفتوں انتظار رہتا تھا کیونکہ یہ فلم پورے سرکٹ میں اسی روز ریلیز کی جاتی۔ اس کے اعلان کے ساتھ یہ لکھنا ضروری سمجھا جاتا:

‘عید کے مبارک دن سے’

‘ہم تو اس روز حیدرآباد جاتے اور وہیں فلم دیکھتے’، خالد نے مسکراتے ہوئے بتایا۔ خالد کے مسکرانے کی ایک خاص ادا ہے۔ مسکراتے ہوئے اس کے اوپر کے دانت کچھ زیادہ چمکنے لگتے ہیں، اس کیفیت میں وہ ہمیشہ کسی نہ کسی پرانی یاد سے ڈوب کر ابھرتا ہے۔

‘حیدرآباد کیوں، اپنے شہر میں کیوں نہیں؟’

‘پتہ نہیں کیوں یار۔’

اس نے مختصر جواب دیا۔ حیدرآباد میں تھا کیا جو کراچی میں نہیں تھا مگر جاتے ضرور تھے۔ ہوٹل میں رہتے تھے، فلم دیکھتے تھے اور صبح پلٹ آتے تھے۔

خالد کی عید میں حیدرآباد اسی طرح ضروری تھا جیسے اس دن سوئیاں ضروری ہوتی ہیں۔ اصل میں یہ صرف خالد کی کہانی نہیں، ہر شخص، ہر خاندان کی کوئی نہ کوئی یاد ایسی ضرور ہے جس کا جواز آج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک عادت اس تذکرہ نویس کی بھی کچھ اسی قسم کی ہے جو ابّا جی مرحوم سے اس میں منتقل ہوئی۔ یہ تھا عید کی نماز پر جانے کا روٹ۔ یہ طے تھا کہ مسجد یا عید گاہ جس راستے سے جائیں گے، واپسی اس راستے سے نہیں ہوگی اور نہ اس دروازے سے گھر میں داخل ہوں گے جس سے نکل کر گئے تھے۔

ابّا جی نے ہی بتایا تھا کہ یہ سنت طریقہ ہے۔ حضور اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ طریقہ شاید اس لیے اختیار کیا گیا ہو کہ گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے خوش باش مسلمانوں کی دھاک مخالفین پر بیٹھ جائے یا شاید کچھ اور سبب ہو، بہرحال جو سبب بھی رہا ہو، ابّا جی کی انگلی پکڑ کر مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے عجیب سی خوشی محسوس ہوتی تھی۔

عید کا تذکرہ ملاقاتوں کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ نہیں معلوم دوسرے خاندانوں کی روایت کیا رہی ہوگی، ہماری روایت دلچسپ تھی۔ خاندان کے بڑے اس روز گھروں میں رہتے اور رشتوں میں چھوٹے انہیں ملنے کے لیے جاتے۔ یہ دن گزر جاتا تو بڑوں کا رخ چھوٹوں کی طرف ہوجاتا۔

عید کے روز رشتے داروں، قرابت داروں اور ملنے والوں کی طرف عید بھیجنے کا بھی رواج تھا۔ عید بھیجنے کی رسم کے 2 حصے تھے، وہی سوئیاں جو خود کھائی جاتیں، ان کا خوان بھر کر ان کی طرف بھی روانہ کیا جاتا۔ ساتھ میں کچھ پیسے بھی۔ عیدی کے تبادلے میں پیسوں کی مقدار دوہری ہوجاتی جیسے اگر پہلے گھر کی عیدی کے ساتھ 5 روپے روانہ کیے جاتے تو جواب میں 10 روپے آتے۔ عیدی کا یہ تبادلہ گھر کے ملازمین کے ذریعے ہوتا یا لڑکوں کے ذریعے۔ عیدی کی اس قسم کی تقسیم کے لیے مجھے شہر میں دُور دُور تک جانا پڑتا۔ یہ سفر میں نے پیدل کیے، سائیکل پر کیے اور موٹرسائیکل پر بھی۔ اب میں کہیں آنے جانے گاڑی استعمال کرتا ہوں لیکن زمانہ بیت چکا، اس عیدی کی تقسیم اب خواب و خیال ہوچکی ہے۔

خواب و خیال گھروں کو بھیجی جانے والی صرف یہ عیدی نہیں ہوئی، ملنا ملانا بھی ہوا ہے، گلی محلے میں کھلنے والی دکانیں اور جھولے وغیرہ بھی ہوئے ہیں، فلمیں بھی ہوئی ہیں اور خاص طور وہ تیاریاں ہوئی ہیں جو عید کے لیے ہوا کرتی تھیں۔ ان تیاریوں کا نکتہ عروج گھوڑی والی ‘سے ویاں’ تھیں جن کے ‘آٹے’ میں گھلنے والی خلوص اور محبت کی ان دیکھی، ان چھوئی مٹھاس تھی۔ اب سوئیاں کڑکتے ہوئے لفافے میں دکان سے آتی ہیں، اس لیے مٹھاس کے لیے چینی کا استعمال کرنا پڑتا ہے، ڈاکٹر آصف عجیب بات کرتے ہیں:

‘سے ویوں’ سے صحت ملتی تھی، سوئیوں سے فربہی۔’

پتہ نہیں کیا ہے لیکن اب یہی ہماری عید ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp