قومی ترانے کی دھن کے خالق احمد غلام علی چھاگلہ کی برسی

بدھ 5 فروری 2025
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ لگ بھگ ڈھائی سال پہلے جب پاکستان کے قومی ترانے کو نئے جدید آلات موسیقی اور گلوکاروں کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا تو ذہن کو اُس عظیم موسیقاراحمدغلام علی چھاگلہ کی یاد ستا گئی جنہوں نے ایک صبر آزما اور طویل جدوجہد کے بعد پاکستانی قومی ترانے کی دھن تیار کی تھی اور اسی کو سنتے ہوئے ہم بچپن سے جوانی کی دہلیز تک پہنچے۔

احمد غلام علی چھاگلہ کی پرکشش اور متاثر کن شخصیت کو دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگے گا کہ وہ موسیقار تھے۔ ظاہری طور پر کسی قانون دان کی طرح ہی لگتے۔ 31 مئی 1902 کو کراچی میں جنم لینے والے احمد غلام علی چھاگلہ نے سندھ مدرسہ کراچی سے تعلیم مکمل کی۔ موسیقی کا جنون کی حد تک شوق تھا اسی لیے مہراج سوامی داس کی شاگردی اختیار کی۔

یہی نہیں اس شعبے میں اور مہارت اور منفردیت کے لیے برطانیہ کے ٹرنٹی کالج آف میوزک تک کا سفر طے کیا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل احمد غلام علی چھاگلہ بمبئی کی فلم نگری سے بھی وابستہ رہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے کم نہیں کہ جب نو زائیدہ مملکت کے قومی ترانہ بنانے کا مرحلہ آیا 4 جولائی 1949 کو ماہرین کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ان میں سے ایک کمیٹی میں احمد غلام علی چھاگلہ بھی شامل تھے جنہوں نے کمیٹی کے روبرو خود کی تیار کی ہوئی دھن بھی پیش کی۔

مختلف کتابوں کے حوالے کے مطابق سال 1950 کے آغاز میں ایران کے نوجوان بادشاہ رضا شاہ پہلوی سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے۔ رسم و رواج اور پروٹوکول کا تقاضا تھا کہ بادشاہ کا استقبال ترانے کی تقریب سے کیا جائے۔ اس لیے سرکاری ترانے کی ضرورت سنجیدگی سے محسوس کی گئی لیکن پاکستان نے ابھی تک اپنے ترانے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، حکام کے پاس وقت کی کمی تھی۔

انہیں نا صرف اس خاص موقع کے لیے بلکہ مستقبل میں ہونے والے پروگراموں کے لیے بھی فوری طور پر قومی ترانے کی ضرورت تھی، کیونکہ ایک بار جب قومی ترانہ منتخب کرکے بجایا جاتا تو اسے تبدیل کرنا ناممکن ہوتا۔ ایسے میں احمد غلام علی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن کو منظور کیا گیا۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر پاکستان بجریہ کے بینڈ نے عبدالغفور کی قیادت میں اسی دھن کو ایرانی شہنشاہ کی آمد پر پیش کیا۔

یہ اولین موقع تھا جب پاکستانی ترانے کو کسی سرکاری محفل کا حصہ بنایا گیا۔ یہاں یہ بھی بتادیں کہ 13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے پہلی بار جب قومی ترانہ پیش کیا گیا تو اس وقت تک حفیظ جالندھری نے اس دھن پر اپنے بول بٹھا کر اسے اور ممتاز بنادیا تھا۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا احمد غلام علی چھاگلہ نے قومی ترانے کی دھن آزمائشی بنیاد پر تیار کی تھی جسے کمیٹی نے منظور بھی کرلیا۔ اور جب کمیٹی کو کسی دھن میں کوئی کشش نظر نہیں آئی تو عارضی بنیادوں پر احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن کوہی منتخب کرلیا گیا۔ اور اس کا باقاعدہ اعلان 21 اگست 1949 کو کیا گیا۔

احمد غلام علی چھاگلہ کی یہ دھن ہر ایک کے دل میں گھر کرگئی۔ اس عرصے میں دیگر دھنوں کی کھوج کا مرحلہ بھی آتا رہا۔ ترانہ کمیٹی نے کئی دھنوں کا جائزہ لیا اور پھر 2 دھنوں کو قومی ترانے کی دھن کے لیے حتمی طور پر منظور کیا۔ ان میں ایک دھن احمد غلام علی چھاگلہ کی تھی جبکہ دوسری دھن موسیقار سجاد سرور نیازی نے ترتیب دی تھی۔ اور پھر اگست 1950 میں کمیٹی کو احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن اس قدر بھائی کہ اسے مستقل طور پر قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کیا گیا۔

براڈ کاسٹر جمیل زبیری نے کتاب ’یاد خزانہ‘  میں لکھا ہے کہ پاکستانی قومی ترانے کی موسیقی احمد غلام چھاگلہ نے ترتیب دی۔ جس کے بعد ملک کے سبھی شعرا کرام کو ترانہ لکھنے کے لیے مدعو کیا گیا جس میں حفیظ جالندھری دیگر شاعروں پر سبقت لے گئے۔

یہ بھی کیسا اتفاق ہے کہ 5 فروری 1953 کو احمد غلام علی چھاگلہ اس دنیا سے چل بسے جبکہ ان کی دھن کو باقاعدہ سرکاری طور پر 1954 میں منظور کیا گیا۔ لگ بھگ 43 سال بعد اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے احمد غلام علی چھاگلہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیا۔ ہیوسٹن میں مقیم ان کے صاحبزادے عبدالخالق چاگلہ نے 23 مارچ 1997 کو واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے میں منعقدہ تقریب میں یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اسی طرح 2023 میں صدر پاکستان نے نشان امتیاز سے بھی نوازا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp