محمد فہد عباس کا گھرانہ 1958 سے کراچی میں موسیقی کے آلات کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تقسیم کے بعد ان کے والد نے یہ ہنر سیکھا، اور پھر 1200 روپے خرچ کرکے دکان لی اور 3 ہزار روپے کا اس میں سامان ڈالا۔
فہد عباس کے مطابق اس وقت ہارمونیم کا بہت کام تھا اور ان کے والد ناصرف ہارمونیم بیچتے تھے بلکہ اس کی مرمت بھی کیا کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے موسیقی ترتیب دیجیے، گوگل نے بڑی سہولت فراہم کردی
انہوں نے کہاکہ ان کے والد نے محنت کرکے کام کو بڑھایا۔ کیونکہ اس وقت موسیقی کا بہت کام تھا، اب وقت بدل گیا اور اس طرف آنے والوں کی تعداد کم ہو چکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شوق سب کو ہے مگر اس مہنگائی میں کیا کیا جائے۔
محمد فہد عباس کے مطابق آج سے 14 برس قبل گٹار کی قیمت 2 سے ڈھائی ہزار روپے تھی جسے ہم چائنا سے امپورٹ کیا کرتے تھے۔ اب اس وقت چین سے آنے والے گٹار کی قیمت 5 سے 6 ہزار روپے ہے لیکن یہاں پورٹ پر آنے کے بعد اس پر 14 ہزار روپے کا ٹیکس لگ جاتا ہے، تو ہم اس قیمت کو کیسے مینیج کریں گے؟
ان کا مزید کہنا ہے کہ موسیقی آلات کو لگژری آئٹمز میں ڈال دیا گیا ہے حالانکہ یہ لگژری آئٹم نہیں ہے، یہ شوق کسی کو بھی ہو سکتا ہے یہاں لوگ آتے ہیں اور قیمت پوچھ کر چلے جاتے ہیں کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بس سے باہر ہے نہیں خرید سکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کچھ موسیقی سکھانے والے ادارے آلات خرید لیا کرتے تھے، اور کچھ شوقین لوگ بھی خرید لیتے تھے، اور سب سے زیادہ بکنے والا آئٹم گٹار تھا، لیکن اب گٹار لوگوں کی خرید سے باہر ہے۔ اب نا ہی ادارے خرید رہے ہیں اور نہ کوئی انفرادی حیثیت میں خریدنے کے قابل ہے، تو یوں سمجھ لیں پہلے جو عام گلی محلے سے ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آتا تھا اب وہ ٹیلنٹ نظر نہیں آتا کیوں کہ یہ اب امیروں کا شوق رہ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں میوزک تھراپی سے آپ کیسے صحت مند رہ سکتے ہیں؟
محمد فہد کا کہنا ہے کہ 1958 سے لے کر اب تک جتنے بھی آرٹسٹ آئے ہیں سب سے ہمارا واسطہ رہا ہے۔ پاکستان کے مشہور کوک اسٹوڈیو کے تیرویں سیزن تک ایسٹرن انسٹرومنٹس ہمارے پاس سے جاتے تھے لیکن اب کوک اسٹوڈیو لاہور منتقل ہوگیا تو ظاہر ہے وہیں سے وہ آلات لیتے ہوں گے۔