فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے وکیل سلمان اکرم راجہ کو یاد دلایا کہ جس سیاسی جماعت یعنی پی ٹی آئی کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اس کے دور میں گرم جوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانونی سازی ہوئی تھی۔
فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، جہاں فوجی عدالت سے سزا یافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف
جسٹس نعیم اختر افغان نے تمہید باندھتے ہوئے کہا کہ وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہے ہیں، بُرا نہ مانیے، آپ کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ آجکل سیاسی وابستگی بھی ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا مخاطب کرتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جب آپ کی سیاسی پارٹی کی حکومت تھی اس وقت آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی، اس وقت پارلیمنٹ نے بڑی گرم جوشی کیساتھ آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: صرف دیکھنا ہے کہ کون سے مقدمات کہاں سنے جاسکتے ہیں، آئینی بینچ
سلمان اکرم راجہ بولے؛ میں اس وقت پی ٹی آئی کا حصہ نہیں تھا، میں تو ہمیشہ اپوزیشن والی سائیڈ پر رہا۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ2 ون ڈی کی حیثیت کو ہر مرتبہ سپریم کورٹ ہی کیوں نظر ثانی کرے، سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ لیگل فریم ورک تبدیل ہوجائے تو عدالتی نظر ثانی کی جاسکتا ہے، آرٹیکل آٹھ 3 کا استثنی 2 ون ڈی کے لیے دستیاب نہیں۔
مزید پڑھیں:سندھ حکومت نے ملٹری کورٹ میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج کردیا
جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا آرمی ایکٹ کے تابع سول ملازم کیخلاف جاسوسی پر تادیبی کاروائی الگ اور ملٹری ٹرائل الگ ہوگا، جس پر سلمان اکرم راجہ کاموقف تھا کہ ایسا نہیں کہ 2 ون ڈی کے بغیر ریاست کا کاروبار نہیں چل سکتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ اگر کوئی سویلین مڈل مین خفیہ راز دشمن کے حوالے کرنے تو ٹرائل کہاں ہوگا، سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ اس کا ٹرائل اسپیشل انڈر آفیشیل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوگا، جس میں ٹرائل کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔
مزید پڑھیں: آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی
سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ وہ اصول اور قانون کے خلاف اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر دلائل نہیں دیں گے، کلبھوشن یادیو کا کیس آپ کے سامنے ہے، دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ آئین میں بنیادی حقوق دے کر انگلی کے ایک اشارے سے چھین لیے جائیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کمانڈنگ آفیسر کہے مجھے ارزم جنید کو میرے حوالے کرو۔