وسطی جمہوریہ افریقہ (سی اے آر) میں مسلح گروہوں کے ہاتھوں مسلمان آبادیوں اور سوڈانی پناہ گزینوں پر وحشیانہ حملوں اور ان کے حقوق کی سنگین پامالیوں کے واقعات پیش آرہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) اور ملک میں تعینات امن مشن (مینوسکا) کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے، جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قیدیوں سے ظالمانہ اور توہین آمیز سلوک، جبری مشقت اور املاک کی لوٹ مار جیسے جرائم کی اطلاعات بھی آرہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلاموفوبیا: دو سیکولر ریاستیں مگر کہانی ایک!
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی دہائیوں سے عدم استحکام اور مذہبی و نسلی بنیادوں پر فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرنے والے ملک میں 20 فیصد آبادی اندرون و بیرون ملک بے گھر ہو گئی ہے اور پرتشدد واقعات میں اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
دہشت کا ماحول
رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2024 اور جنوری 2025 میں صوبہ مبومو میں کم از کم 24 افراد کو ہلاک کیا گیا۔ یہ حملے ملکی فوج کے اتحادی مسلح گروہ ویگنر ٹی آزندے (ڈبلیو ٹی اے) نے کیے۔ 2 مزید علاقوں میں کیے گئے ایسے حملوں میں گلہ بان آبادی فولانی سمیت مسلمان گروہوں اور سوڈانی پناہ گزینوں کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔
ایک اور واقعے میں ڈبلیو ٹی اے سمیت 2 گروہوں نے فولانی برادری کے ایک شخص کو سرعام قتل کرکے دہشت پھیلانے کی کوشش کی جبکہ سات دیگر افراد کو دریا میں پھینک کر ہلاک کردیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حملہ آور مسلح گروہوں نے بڑے پیمانے پر جنسی تشدد کا ارتکاب بھی کیا جس میں 14 خواتین اور 7 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، 21 جنوری کو ایک حملے میں فولانی برادری کے 12 افراد ہلاک کردیے گئے۔
احتساب کا مطالبہ
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے اس تشدد کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی فوج اور ڈبلیو ڈی اے کے مابین تعلقات کی وضاحت ہونی چاہیے اور اس گروہ کے اقدامات سے متعلق مکمل شفافیت سامنے آنا ضروری ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسے غیرمسلح کرنا ہو گا۔
رپورٹ کے مطابق فولانی کیمپ پر حملوں کے بعد ڈبلیو ٹی اے کے کم از کم 14 ارکان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افریقی ملک کیمرون میں رمضان المبارک میں مسلمانوں کی خاص روایت کیا ہے؟
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں محدود ریاستی موجودگی کے باعث جرائم کا بلا روک و ٹوک ارتکاب ہورہا ہے۔
مینوسکا کی سربراہ ویلنٹائن روگوابیزا نے خبردار کیا ہے کہ حکومت اور مشن کی متواتر کوششوں کے باوجود حالات تشویشناک ہیں، ایسے سنگین جرائم پر قابو پانے میں ناکامی کی صورت میں سلامتی کے حوالے سے اب تک کڑی محنت سے حاصل کردہ فوائد زائل ہو جائیں گے اور سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔
امن مشن کی کاوشیں
مشن نے تشدد پر قابو پانے کے لیے شہریوں کو تحفظ دینے اور متاثرہ علاقوں میں ریاستی رٹ بحال کرنے سے متعلق اقدامات بھی کیے ہیں۔ اکتوبر 2024 کے بعد اس نے ڈیمبیا میں اپنی فورس تعینات کر کے وہاں عارضی ٹھکانہ قائم کیا۔ جنوری میں اس نے ملکی مسلح افواج کے اہلکاروں کی تعداد میں اضافے اور سلامتی کی صورتحال کو مضبوط بنانے کی حمایت کی۔
اقوام متحدہ کے مشن نے نومبر میں علاقائی گورنر کو ڈیمبیا کے دورے میں سہولت دی اور مقامی لوگوں کے مابین بات چیت اور مفاہمت کو فروغ دینے میں مدد فراہم کی۔
ملکی حکومت نے بھی تشدد سے نمٹنے کے اقدامات اٹھائے ہیں اور متاثرہ لوگوں کو انصاف تک رسائی دینے اور جرائم کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے ٹریبونل بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔